سورة الرعد - آیت 33

أَفَمَنْ هُوَ قَائِمٌ عَلَىٰ كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ ۗ وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ ۚ أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَم بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ ۗ بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مَكْرُهُمْ وَصُدُّوا عَنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو کیا وہ جو ہر جان پر اس کا نگران ہے جو اس نے کمایا (کوئی دوسرا اس کے برابر ہوسکتا ہے؟) اور انھوں نے اللہ کے کچھ شریک بنا لیے۔ کہہ دے ان کے نام لو، یا کیا تم اسے اس چیز کی خبر دیتے ہو جسے وہ زمین میں نہیں جانتا، یا ظاہری بات سے (کہہ رہے ہو؟) بلکہ ان لوگوں کے لیے جنھوں نے کفر کیا، ان کا مکر خوشنما بنا دیا گیا اور وہ سیدھے راستے سے روک دیے گئے اور جسے اللہ گمراہ کر دے پھر اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) یعنی چونکہ برائیوں سے انہیں نفرت نہیں بلکہ طبیعت کا میلان معصیت کی جانب زیادہ ہے ، اس لئے گمراہ ہیں اور ناقابل ہدایت جب کوئی شخص معصیت کے اس مقام پر پہنچ جائے ، جہاں احساس زیاں اٹھ جائے ، اس وقت ہدایت کا حصول ناممکن ہوجاتا ہے اس آیت میں قرآن حکیم نے اپنے مخصوص انداز میں یہی حقیقت بیان کی ہے ۔