وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِمُ الْمَثُلَاتُ ۗ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلَىٰ ظُلْمِهِمْ ۖ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ
اور وہ تجھ سے بھلائی سے پہلے برائی کو جلدی طلب کرتے ہیں، حالانکہ ان سے پہلے کئی عبرت ناک سزائیں گزر چکیں اور بے شک تیرا رب یقیناً لوگوں کے لیے ان کے ظلم کے باوجود بڑی بخشش والا ہے اور بلاشبہ تیرا رب یقیناً بہت سخت سزا والا ہے۔
شدید العقاب کی تشریح : (ف ١) یعنی کفار مکہ میں یہ عیب ہے کہ وہ اسلام کی برکات سے بہرہ مند نہیں ہونا چاہتے ، بلکہ عذاب طلب کرتے ہیں ، اور یہ نہیں سوچتے کہ عذاب کا آجانا کیا مشکل ہے ، کیا اس سے پہلے نافرمانوں کو ہلاک نہیں کیا گیا ؟ کیا عادوثمود کی بستیاں اب تک ماتم کناں نہیں ، تکنے والے کیوں نہ خیال کرتے ہیں کہ وہ بالکل محفوظ ہیں ، اور انہیں ان کی نافرمانیوں کی سزا نہیں مل سکے گی ۔ جو لوگ خدا کے متعلق اسلامی تخیل کو قابل اعتراض ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو اسلام کا خدا بہت سخت گیر ہے ، انہیں اس آیت پر غور کرنا چاہئے ۔ قرآن کہتا ہے ، وہ صاحب غفران ہے وہ باوجود گناہوں کے اس کا جوش مغفرت ہمیشہ عفر وکشش سے کام لیتا ہے البتہ جب نافرمانی حد سے متجاوز کر جائے اس وقت اللہ تعالیٰ سرکشی کی پوری سزا دیتا ہے ۔