سورة یوسف - آیت 84

وَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا أَسَفَىٰ عَلَىٰ يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور وہ ان سے واپس پھرا اور اس نے کہا ہائے میرا غم یوسف پر! اور اس کی آنکھیں غم سے سفید ہوگئیں، پس وہ غم سے بھرا ہوا تھا۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا غم ! (ف ٢) باپ کا بیٹے کے فراق میں رونا اور غم کھانا قدرتی بات ہے ، مگر حضرت یعقوب (علیہ السلام) صرف یوسف (علیہ السلام) کے باپ ہی نہیں ، بلکہ ایک قوم کے بھی باپ ہیں ، جن کی جانب ان کو خلعت نبوت دے کر مبعوث کیا گیا ہے ، اس لئے غیر موزوں بات ہے کہ ایک پیغمبر اپنے بیٹے کے فراق میں ملت کے درد کو بھول جائے ۔ بات اصل یہ ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) تبلیغ واشاعت کے فرائض مدت سے ادا کر رہے تھے ، اور پیرانہ سالی میں سہارے کی ضروت تھی اپنی اولاد میں یوسف (علیہ السلام) کے سوا کوئی اہل نظر نہ آتا تھا ، جو قوم کا بہترین قائد بن سکے ، اس لئے اس کی گمشدگی کا غم نسبتا زیادہ ہوا ہے ، اور یہ غم واندوہ یوسف (علیہ السلام) کے لئے اس حیثیت سے نہیں ، کہ وہ پیارا بیٹا ہے ، بلکہ اس حیثیت سے کہ وہ آپ کا بہترین وارث ہے ، اس سے قوم کی امیدیں وابستہ ہیں ، یہ دراصل دین وملت کا ہی غم تھا ، جس سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) متاثر تھے ۔ حل لغات : (آیت) ” وابیضت عینہ : یعنی اخر ورقت ، آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔ کظیم : جو اندر ہی اندر گھٹتا رہے ۔ اور اظہار غم نہ کرے ۔ (غصہ کا ضبط کرنے والا) اس سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے صبر کے اندازہ ہو سکتا ہے ، روح اللہ : اللہ کی رحمت ، یہ یا تو بربتائے عقیدہ ہے ، کہ مسلمان کسی وقت بھی مایوس نہ ہو ، اور یا فراست پیغمبرانہ ہے کہ امید کا دیا قلب ودماغ میں روشن ہے ۔