قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَاوَدتُّنَّ يُوسُفَ عَن نَّفْسِهِ ۚ قُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِن سُوءٍ ۚ قَالَتِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ
اس نے کہا تمھارا کیا معاملہ تھا جب تم نے یوسف کو اس کے نفس سے پھسلایا ؟ انھوں نے کہا اللہ کی پناہ! ہم نے اس پر کوئی برائی معلوم نہیں کی۔ عزیز کی بیوی نے کہا اب حق خوب ظاہر ہوگیا، میں نے ہی اسے اس کے نفس سے پھسلایا تھا اور بلاشبہ وہ یقیناً سچوں سے ہے۔
(ف ١) چوبدار جب رہائی کا مژدہ لے کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچا ، تو آپ نے فرمایا میں اس طرح جیل سے باہر آنے کے لئے طیار نہیں ، سب سے پہلے میرے جرم کی تحقیقات ہو ، اگر میں بےقصور ثابت ہوجاؤں تو پھر مجھے اس نوادش خسروانہ کے قبول کرنے میں دریغ نہ ہوگا ، ورنہ میں یہ نہیں کہلانا چاہتا کہ مجرم ہوں ، اور سزا کے دن پورے کرکے جیل سے رہائی حاصل کی ہے ۔ بادشاہ نے عورتوں کو بلایا اور پوچھا بتاؤ کیا تم یوسف (علیہ السلام) میں کوئی عیب پاتی ہو ، اور کیا تم نے یوسف (علیہ السلام) کو مائل کرنے کی کوشش کی تھی انہوں نے بالاتفاق اقرار کیا ، کہ یوسف (علیہ السلام) بےعیب ہے ، ہماری شرارت تھی کہ ہم نے اسے ورغلانا چاہا اور اسے ایک عام انسان سمجھ کر اپنے دام تزویر میں پھنسانا چاہا ، عزیزہ مصر نے جب دیکھا کہ حالات منکشف ہوگئے اور میری عصمت کا بھانڈا پھوٹ کر رہے گا ، تو اس نے از خود اقرار کرلیا کہ میں مجرم ہوں اور میرا یوسف بےقصور ہے ۔ اس عجیب طریق سے پورے دربار میں یوسف (علیہ السلام) کی پاکدامنی اور حیرت انگیز عفت کا اظہار ہوگا ، اور یہی حضرت یوسف (علیہ السلام) چاہتے تھے ، غرض یہ ہے کہ اگر نفس گناہ سے آلودہ نہ ہو تو تہمتیں اور سزائیں عارضی ہوتی ہیں ، ایک وقت آتا ہے ، جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو سرخرو کرتے ہیں ، اور تمام لوگ جو اس کی تذلیل میں حصہ لیتے ہیں ، نادم ہوتے ہیں اور خود ذلیل ہوتے ہیں ، تہمتوں کے بادل چھٹ جاتے ہیں ، اور حقیقت پوری شان وشوکت سے جلوہ گر ہوتی ہے ۔ حل لغات : ما خطبکن : خطب کے معنی حالت وکیفیت کے ہیں ، کلمہ رافع نزاع ۔