وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ
اور دن کے دونوں کناروں میں نماز قائم کر اور رات کی کچھ گھڑیوں میں بھی، بے شک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔ یہ یاد کرنے والوں کے لیے یاد دہانی ہے۔
(ف2) ﴿طَرَفَيِ النَّهَارِ﴾ سے غرض صبح اور شام کے اوقات ہیں بات یہ تھی کہ مجوسی عین طلوع وغروب کے وقت سورج کو قبلہ مان کر عبادت کرتے اس آیت میں نماز کے اوقات ایسے بتائے ہیں کہ سورج پرستی کے لئے کوئی موقع ہی نہ رہے ، اسلام اس لحاظ سے نہایت مکمل مذہب ہے کہ اس میں ہر ممکن احتیاط موجود ہے ، سارے نظام مذہبی میں کہیں شائبہ شرک نہیں ۔ حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں ، طرفین سے فجر وعصر مراد ہے حضرت ابن عباس (رض) کے نزدیک صبح ومغر ہے ، علامہ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس (رض) کے مسلک کی تائید فرمائی ہے ۔ علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت حسن (رض) کے قول کو ترجیح دی ہے کیونکہ﴿ زُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ﴾ میں مغرب وعشاء دونوں داخل ہیں ۔ اس کے بعد فرمایا ہے کہ نماز میں حصول تقوی کی بہترین صورتیں ہیں ، اس لئے اگر کوئی شخص نماز کو قائم کرے گا ، اور روح صلوۃ کو سمجھنے کی کوشش کرے گا ، تو نماز اس کے دل میں پاکیزگی کے جذبات پیدا کر دے گی ، اسے نیک بنا دے گی اور وہ گناہ بھی اس نے جہالت کی وجہ سے کئے ہیں ، نیکیوں کے تلے دب جائیں گے ، نماز بہترین وظیفہ طہارت ہے ، اور نمازی بہترین روحانی رفیق ، اس لئے گناہوں کا جوش کم ہوجانا طبعی بات ہے ۔ حل لغات : زُلَفًا: رات کی پہلی ساعتیں ، زلف جمع زلف ، بمعنی رات کا ایک حصہ وسارا ، اول ۔