وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
اور تو جہاں سے نکلے سو اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لے اور تم جہاں کہیں ہو سو اپنے چہرے اس کی طرف پھیر لو، تاکہ لوگوں کے پاس تمھارے خلاف کوئی حجت نہ رہے، سوائے ان کے جنھوں نے ان میں سے ظلم کیا ہے، سو ان سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور تاکہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کروں اور تاکہ تم ہدایت پاؤ۔
آیات کے تکرار کا سبب : (ف ١) فول وجہ : کو تین دفعہ ذکر کیا ہے ، اس لئے بھی کہ مقصود تاکید ہے جو ان مواقع میں ضرور ہوجاتی ہے جبکہ کوئی اہم اور موجب شبہات حکم نازل ہو اور اس کے لئے ضروری تھا کہ ہر وجہ کے بعدمعلول بھی ذکر کیا جائے یا یہ کہ پہلی صورت میں اس حالت کا ذکر ہے جب آپ کعبہ کے سامنے ہوں ، دوسری صورت وہ ہے جس میں آپ شہر کی دیگر مساجد میں نماز پڑھیں اور تیسری صورت میں مراد یہ ہے کہ جب تم مسافر ہو تو بھی تمہارا قبلہ کعبہ ہی رہے یعنی بہرحال مسلمان کا ہر جسدہ اور اس کی ہر عبادت نہایت درجہ منسلک اور ایک نظام کے ماتحت ہونی چاہئے ، ان آیات میں یہ بتایا کہ تحویل قبلہ سے دو فائدے یہ بھی ہیں کہ یہودیوں اور مشرکین مکہ کا اعتراض اٹھ گیا ، یہودی پہلے کہا کرتے تھے کہ مسلمان بھی عجیب ہیں ، نماز تو ہمارے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے پڑھتے ہیں اور ہمارے مذہب کی مخالفت کرتے ہیں ۔ مشرکوں کا اعتراض تھا کہ دیکھئے دعوی تو یہ ہے کہ ہم مذہب ابراہیمی کے پابند ہیں اور مرکز عبادت بیت المقدس ہے ، اب جبکہ بیت المقدس سے منہ موڑ کر کعبہ کو قبلہ مان لیا گیا تو دونوں گروہوں کو تشفی ہوگئی ، پھر اتمام نعمت اور ہدایت ارزانی کا بھی سامان ہوگیا یعنی سارے دنیائے انسانیت کو ایک مرکز پر جمع ہونے کی دعوت دی اور عملا حج میں اس طرح کے وظائف اور ارکان داخل کئے جنہیں دیکھ کر قلب میں رقت طاری ہوجائے اور اسلام کی حقیقی شان وجدت وانکسار آنکھوں میں پھرجائے ، جن لوگوں نے حج کے کوائف پر نفسیانی غور کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ اس میں کس قدر بصائر ومعارف پنہاں ہیں اور کس طرح ہر نوع کے انسانوں کو چن چن کر اکٹھا کیا ہے اور سب کو ایک خدا کے سامنے جھکا دیا ہے ، لبیک لبیک کی مخلصانہ آوازیں کتنی ایمان پرور اور روح میں نزہت پیدا کرنے والی ہیں ۔ حل لغات : حجۃ : اصل میں معنی دلیل کے ہیں یعنی مراد اعتراض ہے ۔