قَالُوا يَا شُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيرًا مِّمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَاكَ فِينَا ضَعِيفًا ۖ وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْنَا بِعَزِيزٍ
انھوں نے کہا اے شعیب! ہم اس میں سے بہت سی باتیں نہیں سمجھتے جو تو کہتا ہے اور بے شک ہم تو تجھے اپنے درمیان بہت کمزور دیکھتے ہیں اور اگر تیری برادری نہ ہوتی تو ہم ضرور تجھے سنگسار کردیتے اور تو ہم پر ہرگز کسی طرح غالب نہیں۔
(ف ١) جب قومیں جذبہ دینداری سے عاری ہوجائیں اور ان کا نصب العین دنیا کی پوجا قرار پائے ، جب ہوائے نفس کے بادل قلب ودماغ پر چھا جائیں ، اور دن رات حصول زر کا خیال دامن گیر ہو ، جب دنیا مقصود ٹھہرے اور دین دوسرے درجے کی چیز رہ جائے تو اس وقت پند ونصیحت بیکار ہے ، پھر اخلاقی وعظ ان کے دلوں میں اثر انداز نہیں ہوتے ، اور نہ طبیعتیں قبول حق کے لئے آمادہ ہوتی ہیں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم دنیا داری کے ان درجات کو طے کرچکی تھی ، زر طلبی اور ہوس رانی ، زندگی کا شعار قرار پا چکا تھا ، اس لئے صداقت وسچائی کی راہوں میں کامیابی انہیں مشکل نظر آئی انکی سمجھ میں نہیں آتا تھا ، کہ دیانتداری کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیونکر تجارت میں کامیاب ہو سکتے ہیں ، کاروبار تو جھوٹ اور فریب کے سوا چل نہیں سکتے ، اس لئے انہوں نے صاف صاف کہہ دیا یہ فلسفہ دینداری ہماری عقل سے بالا ہے ، اور جب دیکھا کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی کوششیں برابر جاری ہیں ، اور وہ سب کو پاکبازی اور عدل وانصاف کی دعوت دینے میں بدستور مصروف ہیں اور مایوس نہیں ہوئے تو انہوں نے دھمکی دی کہ دیکھئے آپ ہم میں کمزور ہیں آپ کا مار ڈالنا ہمارے لئے کچھ بھی مشکل نہیں ، ہمیں ان عزیزوں کا خیال ہے ، جو ہمارے بھی عزیز ہیں اور آپ کے بھی اور جو آپ کے ہم عقیدہ نہیں ورنہ کبھی آپ کا کام تمام کردیا ہوتا ۔ حل لغات : ودود : ود سے مشتق ہے یعنی منبع محبت ۔ رھط : گروہ وجماعت مرداں ، واحد پر بھی اس کا اطلاق ہو سکتا ہے ۔ ظھریا : ظہر سے بنا ہے یعنی پس پشت ڈالا ، ہوا ۔