قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ ۖ إِنَّكَ لَأَنتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ
انھوں نے کہا اے شعیب! کیا تیری نماز تجھے حکم دیتی ہے کہ ہم انھیں چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے تھے، یا یہ کہ ہم اپنے مالوں میں کریں جو چاہیں، یقیناً تو تو نہایت بردبار، بڑا سمجھ دار ہے۔
اکل حلال : (ف ١) حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جب توحید کی طرف قوم کو بلایا ، خدا پرستی کی تلقین کی اور کہا کہ عقیدہ تو حید عام اعمال میں بھی نظر آنا چاہئے پورا تول کر دو اور پورا ناپ کرلو ، تو انہوں نے از راہ بدبختی کہا واہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے کل مال ودولت میں تمہارے تصرفات کو مان لیں ہم جیسا چاہیں گے کریں گے ، اس کے بعد یہ کہہ کر حضرت شعیب (علیہ السلام) کی کچھ چاپلوسی کی ہے ، کہ تم نہایت بردبار اور نیک ہو ، یہ تجارت اور بزنس کے داؤں گھات ہیں تم کیا جانو ، یہ کیا ہیں اس لئے ان چیزوں کی مخالفت نہ کرو ، اور دخل در معقولات سے باز آجاؤ ۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے تو اکل حلال کی تلقین ، کی ، کیونکہ اکل حلال ہی سے صحیح مذہبی روح باقی رہتی ہے ، دل میں جذبات پاکیزہ رہتے ہیں دین کے لئے دلوں میں جوش اور حمیت رہتی ہے ، روح کی بالیدگی اور اعمال کی پاکیزگی کا یہ اولین وسیلہ ہے یہی اصل ریاضت ہے عبادت کی جان ہے اور دین کا اساس ، مگر قوم نے اس کی مخالفت کی اور حرام کھانے کی ٹھان لی ، اس لئے کہ اکل حلال میں مشکلات ہیں ، لوٹنے اور ناجائز طریقوں سے مال حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا ، نفسانی آسائشیں فراوانی سے میسر نہیں ہوتیں یہ لوگ چونکہ محنت کے عادی نہ تھے راحت طلب اور ہوائے نفس کے تابع تھے ، اس لئے شعیب (علیہ السلام) کی دعوت قبول کرنے سے محروم رہے ۔