وَيَا قَوْمِ هَٰذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيبٌ
اور اے میری قوم! یہ اللہ کی اونٹنی ہے، تمھارے لیے عظیم نشانی، پس اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسے کوئی تکلیف نہ پہنچاؤ، ورنہ تمھیں ایک قریب عذاب پکڑ لے گا۔
(ف ٢) اونٹنی کو نشانی قرار دینے کا مقصد یہ تھا کہ دیکھیں ان کے بغض وعناد کی مقدار کیا ہے ؟ قاعدہ ہے ، کہ جب ایک شخص سے محبت ہو تو اس کی ہر چیز سے محبت ہوجاتی ہے ، اور اگر بغض ہو ، تو پھر اس کی کوئی چیز دل کو نہیں بھاتی ، حضرت صالح (علیہ السلام) نے اسی اصول پر محبت اور عقیدت کو جانچا ، اور کہا دیکھو اس اونٹنی کو نہ چھیڑنا ورنہ سمجھ لیا جائے گا ، تمہیں ہم سے بیحد عداوت ہے ، اور تمہیں یہ بھی گورار نہیں کہ ہماری اونٹنی زندہ رہے ۔ حل لغات : تخسیر : گھاٹا ، خسارہ ۔ ناقۃ اللہ : یعنی اللہ کی پیش کردہ اونٹنی ۔ نسبت اضافت تشریف کے لئے ہے ۔ اللھم اغفر لکاتبیہ ولمن سعے فیہ ۔