سورة یونس - آیت 85

فَقَالُوا عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو انھوں نے کہا ہم نے اللہ ہی پر بھروسا کیا، اے ہمارے رب! ہمیں ظالم لوگوں کے لیے آزمائش نہ بنا۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٢) دین ودنیوی استقلال کے لئے پہلا زینہ جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کے لئے تجویز فرمایا وہ توکل ہے ، یعنی ۔ ١۔ خدا پرکامل ایمان ۔ ٢۔ کامیابی کا پورا یقین ۔ ٣۔ وسائل وذرائع میں دیانت وصیانت کا لحاظ ۔ ظاہر ہے جب قوم میں یہ تین چیزیں پیدا ہوجائیں تو سمجھ لیجئے کہ قوم بیدار ہوچکی ، اور کامرانی کی راہیں اس پر کھل چکی ہیں ۔ اللہ کو اگر چارہ ساز مان لیا جائے تو پھر کامیابی یقینی وقطی ہے ۔ توکل کا صحیح مفہوم یہی ہے آج توکل کے معنے تعلل وبے کاری کے ہیں ، اللہ مسلمانوں کو سمجھ دے ، آمین ۔ حل لغات : المسرفین : مسرف حدود فطرت سے تجاوز کرنے والا ، فتنۃ : وجہ آزمائش ۔