فَكَذَّبُوهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ فِي الْفُلْكِ وَجَعَلْنَاهُمْ خَلَائِفَ وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنذَرِينَ
پس انھوں نے اسے جھٹلا دیا تو ہم نے اسے نجات دی اور ان کو بھی جو اس کے ساتھ تھے کشتی میں اور انھیں جانشین بنایا اور ان لوگوں کو غرق کردیا جنھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا۔ سو دیکھ ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جنھیں ڈرایا گیا تھا۔
(ف ٢) یعنی بالاخر حق کی فتح ہوئی ، حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو نجات ملی وہ کشتی میں بیٹھ کر محفوظ رہے اور کنارے جا لگے اور جو مجرم تھے جن میں رشد وہدایت کی کوئی استعداد باقی نہیں رہی تھی ، بلکہ وہ تمام نسل انسانی کیلئے گمراہی کا موجب ہو سکتے تھے ، باقی سب غرق کردیئے گئے تاکہ آیندہ نسلیں ان کے شر سے محفوظ رہ سکیں اور گمراہ نہ ہوں ۔ عذاب سے مقصد خدا کے جاہ وجلال کا اظہار نہیں ہوتا ، بلکہ انسانوں کی نافرمانیاں جب حد سے تجاوز کر جاتی ہیں ، اور ان کا وجود دوسرے انسانوں کے لئے مضر ہوجاتا ہے ، اس وقت ان کا مٹا دینا ہی دوسرے انسانوں پر بہت بڑا کرم ہے ۔ جب ہاتھ یا پاؤں بقیہ جسم کے لئے خطرہ کا موجب ہوجاتے ہیں ، تو اس وقت جسم انسانی سے اس کو الگ کردینا ہی بقائے انسانی کی بہترین تدبیر ہوتی ہے ، اس طرح قومیں جب ان کا بعض حصہ مسموم ہوجائے اور ان کی وجہ سے اندیشہ ہو ، کہ زہر سارے جسم انسانی میں سرایت کر جائے گا تو اس وقت بھی مناسب اور ضروری ہوتا ہے کہ اس مضر حصہ کو باقی حصوں سے علیحدہ کردیا جائے ۔