قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۚ إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ
کہہ دے میں اپنی ذات کے لیے نہ کسی نقصان کا مالک ہوں اور نہ کسی نفع کا، مگر جو اللہ چاہے۔ ہر امت کے لیے ایک وقت ہے، جب ان کا وقت آپہنچتا ہے تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے رہتے ہیں اور نہ آگے بڑھتے ہیں۔
عذاب کا وقت : (ف ٢) مکے والے بربنائے استہزاء عذاب کے طالب تھے ، کہتے تھے کہ جب آپ شب وروز ہمیں عذاب سے ڈراتے ہیں ، تو پھر وہ آکیوں نہیں جاتا ، اور کیوں ہمیں انکار ومعصیت کے لئے زندہ رہنے دیا جاتا ہے ، گویا ان کے خیال میں اللہ جو انہیں ڈھیل دے رہا ہے ، اور مواخذہ میں تعجیل نہیں کرتا ، تو یہ ان کے لئے ہمت افزائی ہے ، قرآن نے جواب دیا ہے کہ کسی قوم کے متعلق آخری فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے ، پیغمبر نفع وضرر کا مالک نہیں ، اللہ جب تک چاہے مجرموں کو ڈھیل دے ، اور جب ان کے جرائم حد سے تجاوز کر جاتے ہیں ، تب ان کی تباہی کا وقت آجاتا ہے ، اور پھر نہ تاخیر ہوتی ہے اور نہ خرابی میں کسر رکھی جاتی ہے ۔