وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللَّهُ شَهِيدٌ عَلَىٰ مَا يَفْعَلُونَ
اور اگر کبھی ہم تجھے اس کا کچھ حصہ واقعی دکھلا دیں جس کا ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں، یا تجھے اٹھا ہی لیں تو ہماری ہی طرف ان کا لوٹ کر آنا ہے، پھر اللہ اس پر اچھی طرح گواہ ہے جو وہ کر رہے ہیں۔
(ف ١) یعنی منکرین ومعاندین کے لئے دو قسم کی سزائیں ہیں ایک وہ جو دنیا میں واقع ہوں گی اور دوسری کا تعلق آخرت سے ہے ، آیت کا مقصد یہ ہے کہ مخالفین رسول دونوں قسم کی سزاؤں کے مستحق ہیں ، دنیا میں ان کی ذلت وتحقیر آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے ، کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کا غضب ان پر نازل ہوتا ہے ۔ ’ اما “ میں ، ان حرف شرط ہے ما تزئین کلام کے لئے اضافہ ہے ، اور جواب شرط محذوف ہے ۔ فتراہ : یعنی ہم تمہیں اگر یہ عذاب جو ان کے لئے مقدر ہے یہاں دکھائیں گے ، تو آپ یہاں دیکھ لیں گے ، ورنہ آخرت میں تو ان کی ذلت آشکارا ہو کر ہی رہے گی ،