وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ ۙ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ ۚ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
اور جب ان پر ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے، کہتے ہیں کوئی قرآن اس کے سوا لے آ، یا اسے بدل دے۔ کہہ دے میرے لیے ممکن نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے بدل دوں، میں پیروی نہیں کرتا، مگر اسی کی جو میری طرف وحی کی جاتی ہے، بے شک میں اگر اپنے رب کی نافرمانی کروں تو بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
(ف ١) مکے والوں کی سب سے بڑی بدبختی یہ تھی کہ آکر وقت تک انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منصب کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی ، ان کا یہ مطالبہ کہ قرآن میں حسب دل خواہ تبدیلیاں کر دو ، اس دعوی پر دلیل ہے ، بھلا کیا انبیاء علیہم السلام اپنی مرضی سے تعلیمات الہیہ میں اصلاح وترمیم کرسکتے ہیں ۔ انبیاء علیہم السلام کے تو معنے ہی یہ ہیں ، کہ وہ ارادہ الہی کے ترجمان ہیں اپنی جانب سے وہ کچھ نہیں کہتے ، انکی ہر بات منشاء الہی کے مطابق ہوتی ہے ، انبیاء علیہم السلام کا نفس بشری اپنی تمام خواہشوں اور اقتضاء کو نفس نبوت کے تابع کرلیتا ہے ، اس لئے اپنی جانب سے تبدیلی اور اصلاح کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اگر نبی اپنے دعوے سے دست بردار ہوجائے اور قوم کے جذبات وخیالات کے ماتحت ہوجائے ، تو پھر اس میں اور فریب کار انسان میں کیا فرق ہے ، انبیاء علیہم السلام کی باتیں محکم اور اٹل ہوتی ہیں ، جو خدا کی جانب سے ہیں ، اس میں انسان مداخلت سراسر بےجا اور بےضرورت ہے ۔ اس آیت میں اسی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے ۔ حل لغات : خلٓئف : قائمقام ، پس آیندگان ۔