إِنَّ فِي اخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَّقُونَ
بے شک رات اور دن کے بدلنے میں اور ان چیزوں (میں) جو اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کی ہیں، یقیناً ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو ڈرتے ہیں۔
الایات : (ف ٢) قرآن حکیم کا یہ عجب طرزاستدلال ہے کہ وہ زیر بحث مطالب کی کائنات کے مظاہر پیش کرکے آسانی سے ثابت کردیتا ہے ۔ ” لایات “ کہہ دینے سے تمام دعاوی کی جانب ذہن خود بخود منتقل ہوجاتا ہے ، توحید وجود باری ، بعثت ، رسالت اور دیگر قسم کے تمام دعاوی اس مظاہرہ قدرت سے عیاں ہیں ، غور فرمائیے ، دن اور رات کا تعین اور کائنات کی دوسری خوبیاں جو ہر ذرہ میں جاری وساری ہیں ، کیا بغیر خدا کے ممکن ہیں ، کائنات کا نظم وفسق اور ایک مخصوص وحدت کے جلوے کیا توحید کی جانب ذہن انسان کو متوجہ نہیں کرتے کیا یہ سب کچھ بےغرض وغایت ہے آسمان کی بلندیاں اور زمین کی بستیاں بےمطلب ہیں ؟ کیا یہ بعثت وحشر کی طرف صاف اشارہ نہیں ، مادی نظام کی تکمیل کے بعد کیا روحانی نظام کی تکمیل غیر ضروری ہے ، کیا عقل مان سکتی ہے کہ انسان کو اور کارگاہ حیات کو یونہی بےفائدہ اور بےغرض پیدا کیا گیا ہے ، اس کے لئے کوئی پروگرام اور کوئی نصب العین نہیں ؟ کیا یہ احتیاج روحانی بجائے نبوت کی دلیل نہیں ؟ یہ سب مطالب لایات کہہ کر بیان کردیئے ہیں ، یہ قرآن کا اعجاز ہے ۔