إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
بے شک تمھارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر بلند ہوا۔ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے۔ کوئی سفارش کرنے والا نہیں مگر اس کی اجازت کے بعد، وہی اللہ تمھارا رب ہے، سو اس کی عبادت کرو۔ تو کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔
کائنات کا دل : (ف ٢) ایام سے غرض مدت ہائے دراز ہیں کیونکہ یوم کے لفظ میں باعتبار لغت و ادب بہ نسبت نہار لفظ کے جس کے معنے دن کے ہیں اور زیادہ وسعت ہے ، (آیت) ” استوی علی العرش “ سے غرض عطوفت الہی کا کائنات کی جانب متوجہ ہونا ہے ، عرش تدابیر الہی کا مقام ومرکز ہے ، جس طرح دل انسان کے لئے تمام ارادوں کا مدار ومحور ہے ، اس طرح عرش کا ئنات مادی کا دل ہے ، یا غیر اعلی سمجھ لیجئے تجلیات تدبیری عرش کی وساطت سے نافذ ہوتی ہیں ، یعنی اللہ کے تمام احکام یہیں سے صادر ہوتے ہیں ، تفصیل گزشتہ اوراق میں گزر چکی ہے ۔ حل لغات : الامر : وہ حقیقت عامہ جو ساری کائنات کو شامل ہے ۔