وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۖ وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ
اور جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لیے لوٹ کر آنے کی جگہ اور سراسر امن بنایا، اور تم ابراہیم کی جائے قیام کو نماز کی جگہ بناؤ۔ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو تاکیدی حکم دیا کہ تم دونوں میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو۔
کائنات کا مرکز عبادت : (ف ٢) مثابۃ کے معنی مرجع عام اور جاذب مرکز کے ہیں جس طرف لوگ کسی مضبوط تعلق کی وجہ سے کھینچے آئیں ، اسلام کی صداقت کی بہت بڑی دلیل اس کی ہمہ گیری جاذبیت بھی ہے ، اور جذب و کشش کا سب سے بڑا مرکز بیت اللہ ہے ، آج سے کئی ہزار سال پہلے دانیال نبی نے بطور مکاشفہ کہا تھا میں آسمان سے نیا یروشلم اترتا ہوا دیکھتا ہوں ۔ حضرت ابراہیم نے کئی سو سال پہلے وادی غیر ذی زرع میں بےآب و گیاہ زمین میں اللہ کا ایک گھر بنایا اور دعا کی ، فاجعل افئدۃ من الناس تھوی الیھم کہ ساری کائنات کے دل اللہ کے اس گھر کے ساتھ وابستہ ہو یہ امن و سعادت کا بہت بڑا مقام قرار پائے ۔ یہاں کے لوگ دنیوی لذائذ و ثمرات سے ہمیشہ متمع رہیں ، دیکھو یہ دعا کس درجہ قبول ہوئی ، لوگ دور دراز سفر طے کر کے جاتے ہیں کارواں در کارواں روانہ ہوتے ہیں ، مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک کوئی قطعہ ارض ایسا نہیں جہاں دعوت ابراہیمی پر لبیک نہ کہا جاتا ہو ، یہ مرکزیت عالم زائرین کا یہ عظیم و مقدس ہجوم جس کا مقصد طواف و عکوف اور رکوع و سجود کے سوا کچھ نہیں کیا کسی اور جگہ بھی ہے ؟ ان آیات میں یہ دکھانا بھی مقصود ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) جن کی تم سب مشترکہ عزت کرتے ہو ان کے صحیح جانشین ہم ہیں واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی پر ہمارے سوا کون عامل ہے اور یہ کہ خدا کے پرستاروں کی یہ جماعت موحدین کا یہ گروہ یقینا ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاؤں کا نتیجہ ہے اس لیے اسے درخور اعتنا نہ سمجھیں اور باطل جاننا درست نہیں ۔ حل لغات : امام : قائد ، قابل پیروی شخص مثابۃ : مرجع عام ، مرکز ، معبد مصلی : جائے نماز ، عھدنا : مادہ عھد ، معنی حفظ الشیئ و مراعاتہ حالا بعد حال یعنی کسی شے کی مسلسل و پیہم حفاظت کرنا یہاں مراد قابل رعایت و عمل حکم ہے ۔