يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے باپوں اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ بناؤ، اگر وہ ایمان کے مقابلے میں کفر سے محبت رکھیں اور تم میں سے جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا سو وہی لوگ ظالم ہیں۔
(ف ١) غرض یہ ہے کہ اسلام کے بعد پرانے تعلقات منقطع ہوجاتے ہیں ، اور نئے رشتے استوار ہوتے ہیں ، وہ لوگ جو منکر ہیں ، جنہوں نے کفر کو ترجیح دی اور ایمان کو ٹھکرا دیا ، ان سے ایک مسلم کا کوئی رشتہ ناطہ نہیں ‘ وہ اخلاقی اعانت کے مستحق ہیں ، مگر اس بات کی اجازت نہیں کہ مسلمان انہیں معتمد سمجھیں ، اور ان سے مسلمانوں کے راز کی بات کہہ دیں ان پربھروسہ کرنا گناہ ہے کیونکہ ان کے تعلقات ذاتی طور پر مسلمان کے ساتھ ہو سکتے ہیں ، مگر بالعموم وہ اسلام کی شان وشوکت کو نہیں دیکھ سکتے ۔ بات یہ ہے کہ جب اعلان برات ہوا اور صاف طور پر کفر سے علیحدگی اختیار کرلی گئی تو اس وقت صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین نے کہا ، ہمارے مکہ والوں سے تعلقات ہیں ، رشتہ داریاں ہیں ، یہ کیسے لچھوٹ سکتی ہیں ، اس پر اللہ نے فرمایا ، ان سے دوستداری کے اتفاقات منقطع ہیں ، اور جو اس واضح اعلان کے بعد بھی ان سے تعلقات قائم رکھے گا ، وہ ظالم ہے ۔ یعنی سیاسی مصالح کا اقتضاء یہ ہے کہ مخالفین پر اعتماد نہ کیا جائے ۔