مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ۚ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
کبھی کسی نبی کے لائق نہیں کہ اس کے ہاں قیدی ہوں، یہاں تک کہ وہ زمین میں خوب خون بہا لے، تم دنیا کا سامان چاہتے ہو اور اللہ آخرت کو چاہتا ہے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
بدر کے قیدی : (ف ٢) جب بدر میں ستر آدمی قید ہو کر آئے جو نہایت مفسد اور شریر تھے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین سے پوچھا کہ انہیں کیا کیا جائے ، حضرت ابوبکر (رض) نے مشورہ دیا کہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے اور جان بخشی کی جائے ، شاید انہیں رجوع کی توفیق مرحمت ہو ۔ حضرت عمر (رض) کی رائے تھی انہیں جان سے مار دیا جائے کیونکہ مفسد ہیں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ابوبکر (رض) کی رائے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور مسیح (علیہ السلام) کی طرح ہے ، دونوں نے مغفرت کی طلب کی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” فمن تبعنی فانہ منی ومن عصانی فانک غفور رحیم “۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے دن یوں فرمائیں گے ، (آیت) ” ان تعذبھم فانھم عبادک وان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم “۔ اور عمر (رض) نے حضرت نوح (علیہ السلام) کا سا مطالبہ کیا ہے (آیت) ” رب لا تذر علی الارض من الکفرین دیارا “۔ اور بالآخر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جذبہ رحم حضرت ابوبکر (رض) اور دیگر صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین کے ساتھ متحد ہوگیا ، جو فدیہ کی رائے دیتے تھے ، قرآن کی نظر میں چونکہ یہ لوگ خطرناک مجرم تھے اور ان کا چھوڑ دینا امن عامہ کے لئے سخت مضر تھا ، اس لءے یہ آیات نازل ہوئیں کہ فدیہ لے کر چھوڑ دینے میں غلطی ہوئی ، انہیں جان سے مار دینا چاہئے تھا ، (آیت) ” یریدون “ سے مراد عوام ہیں جو کہ اخلاص کی وجہ سے نہیں بلکہ مال ومتاع کی وجہ سے فدیہ لینے کی رائے دیتے تھے ۔