سورة الانفال - آیت 60

وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ان کے (مقابلے کے) لیے قوت سے اور گھوڑے باندھنے سے تیاری کرو، جتنی کرسکو، جس کے ساتھ تم اللہ کے دشمن کو اور اپنے دشمن کو اور ان کے علاوہ کچھ دوسروں کو ڈراؤ گے، جنھیں تم نہیں جانتے، اللہ انھیں جانتا ہے اور تم جو چیز بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے وہ تمھاری طرف پوری لوٹائی جائے گی اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) قوت کا مفہوم بہت وسیع ہے ، غرض یہ ہے کہ مسلمان تو دشمنوں کے مقابلہ میں ہر وقت صاحب قوت رہنا چاہئے ، توپ وتفنگ کے مقابلہ میں توپ وتفنگ ، اور علم وسنان کے مقابلہ میں علم وسنان ، جس طرح کے حالات ہوں جو ذرائع ہوں ، قوت وغلبہ کے حصول کے لئے وہ سب مسلمان کو معلوم ہونا چاہئیں ۔ ہر زمانے اور ہر دور میں مسلمان کے پاس قوت کا ایک خزانہ ہو ، جس سے وہ دشمنوں کو ڈرا دھمکا سکے ، مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ دشمنوں کے مقابلہ میں خوفناک وخطرناک رہے ، اگر حصول علم قوت کے مفہوم میں داخل ہو تو سب سے زیادہ عالم ہو ، اگر ثروت ودولت کے اسلحہ کی حاجت ہو ، تو سرمایہ دار بنے ، اگر سائنس اور علوم جدیدہ قوت کے مفہوم میں داخل ہوا اور اگر مادی قوتیں زیادہ لائق امتناء ہوں تو ان کا خیال رکھے ، غرض یہ ہے ، کہ بہر حال دوسروں کے مقابلہ میں عاجز نہ ہو ،