كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ
جس طرح تیرے رب نے تجھے تیرے گھر سے حق کے ساتھ نکالا، حالانکہ یقیناً مومنوں کی ایک جماعت تو ناپسند کرنے والی تھی۔
غزوہ بدر : (ف1) 2ھ میں مسلمانوں کو ضرورت محسوس ہوئی کہ مکے والوں کی شرارتوں کا قطعی سدباب کردیا جائے یہ تقریبا 300میل کی دوری کے باوجود مسلمانوں کو چین سے نہیں رہنے دیتے تھے اکثر دھمکیاں دیتے ، کہ ہم یثرب پہنچ کر تمہیں مزہ چکھائیں گے ربیع الاول 2ھ میں ایک شخص کو زبن جابر الفہری مدینہ پہنچا اور اونٹ لوٹ کرلے گیا ، حضور (ﷺ) نے فیصلہ کرلیا ، کہ مدینے سے باہر نکل کر فیصلہ کن جنگ ہوجائے ، تاکہ کفر کو آیندہ ایمان کے خلاف جرات نہ رہے ۔ حضور (ﷺ) نے صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین سے مشورہ کیا ، سب نے رضا مندی کا اظہار کیا یہ ایک جماعت ایسی تھی ، جسے باہر نکل کر کامیابی کا بھروسہ نہ تھا وہ کہتے تھے ہم اچھی طرح تیار نہیں ہیں ، پہلے سے علم ہوتا تو تیاری کرلیتے مگر حضور (ﷺ) کا فیصلہ قطعی تھا اللہ تعالیٰ یہ چاہتے تھے کہ احقاق حق ہوجائے ، اور کفر کے سارے ارمان نکل جائیں ، ﴿إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ﴾ سے غرض یہ ہے کہ ایک قافلہ ابو سفیان کا جا رہا تھا جس کے تعاقب میں مسلمان نکلے ، مگر کفار مکہ کا لشکر جرار مقابلے کے لئے آرہا تھا ، اللہ یہ چاہتے تھے کہ تمہاری مڈبھیڑ لشکر سے ہو ، تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ ایمان میں کتنی قوت ہے اور تم چاہتے تھے کہ قافلہ ہاتھ آجائے ، تاکہ آسانی سے مال غنیمت کے حقدار بن جائیں ، اس لئے وہی ہوا جو خدا کا منشاء تھا ۔