هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا ۖ فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ ۖ فَلَمَّا أَثْقَلَت دَّعَوَا اللَّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
وہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا، تاکہ وہ اس کی طرف (جاکر) سکون حاصل کرے، پھر جب اس نے اس (عورت) کو ڈھانکا تو اس نے ہلکا سا حمل اٹھا لیا، پس اسے لے کر چلتی پھرتی رہی، پھر جب وہ بھاری ہوگئی تو دونوں نے اللہ سے دعا کی، جو ان کا رب ہے کہ بے شک اگر تو نے ہمیں تندرست بچہ عطا کیا تو ہم ضرور ہی شکر کرنے والوں سے ہوں گے۔
(ف ١) عام مفسرین نے یہاں یہ قصہ بیان کیا ہے کہ حواء جب حاملہ ہوئیں ، تو شیطان ان کے پاس آیا اور کہنے لگا جانتی ہو ، اب کیا ہوگا ، تیرے پیٹ سے جانور پیدا ہوگا ، اور خدا جانے کس تکلیف کے انداز میں پیدا ہو ، یا انسانی بچہ پیدا ہو تو ناقص ہو ، میں اللہ کا مقرب ہوں ، اگر میری مانو اور ہونے والے بچے کا نام عبدالحارث رکھو ، تو کوئی اندیشہ نہیں ، حواء اس پر راضی ہوگئیں ، اور بچے کا نام عبدالحارث رکھا ، جو شیطان کا نام ہے ، یہ آیت اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے ، مگر یہ واقعہ حقیقت درست نہیں کیونکہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ خدا کا پیغمبر دوبارہ شیطان کے دھوکے میں آگیا ، حالانکہ مرد مومن بھی دو دفعہ دھوکا نہیں کھاتا ، ” المؤمن لا یلدغ من حجرواحد مرتین “۔ نیز اس واقعہ کے صاف صاف معنی یہ ہیں کیا انبیاء بھی شرکیہ افعال کے مرتکب ہو سکتے ہیں ، دیکھئے قرآن نے میاں بیوی دونوں کو برابر کا مجرم قرار دیا ہے ، (آیت) ” جعلالہ شرکائ“۔ حالانکہ یہ منصب نبوت کے منافی ہے ، ہو سکتا ہے ، کہ اجتہاد وفہم میں تسامح سرزد ہو ، مگر توحید جیسی تین حقیقت میں اشتباہ ناممکن ۔ بات اصل میں یہ ہے کہ یہاں آدم وحواء کا ذکر ہی سرے سے موجود نہیں ، عام انسانوں کا ذکر ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں دیکھو ہم نے تمہیں ایک ہی نفس ونوعیت سے پیدا کیا ہے مگر تم ہو کہ تخلیق اولاد کو دوسروں کی جانب منسوب کرتے ہو ، اس حقیقت کو نہایت دل نشین انداز میں بیان کیا ہے ، یعنی بتایایہ ہے کہ شرک کرتے وقت انسانی نفسیات کیا ہوتی ہیں ۔ عورت جب محسوس کرتی ہے کہ پاؤں بھاری ہیں ، تو خوشی خوشی کام کاج میں مصروف نظر آتی ہے اور اس بوجھ کو لادے لادے پھرتی ہے ۔ (آیت) ” فلما اثقلت “۔ جب یہ جانتی ہے کہ اب ولادت کا وقت قریب ہے تو اس وقت اس کے دل میں خطرہ پیدا ہوتا ہے ، جانے بچہ کس قسم کا پیدا ہو تندرست ہو یا بیمار ، پھر خوف وہراس دور ہوتا ہے ، اللہ کرم کرتے ہیں بچہ تندرست پیدا ہوتا ہے ، اس وقت میاں بیوی دونوں کہتے ہیں کہ یہ سب ” میراں “ کی بخشش ہے ، ” خواجہ “ کی نوازش ہے ۔ ” بڑے پیر “ کی مہربانی ہے حالانکہ ان میں سے کسی بزرگ کو بھی تخلیق وتولید میں کوئی دخل نہیں ۔ (آیت) ” فلما تغشہا “۔ سے لے کر جعلا لہ “۔ تک تمام ماضی کے صیغے مستقبل کے معنوں میں ہیں ۔ حل لغات : تغشی : تغشی سے ماضی کا صیغہ ہے چھا جانے کے معنوں میں ۔ صالحا : چنگا بھلا ، نیکو کار ۔