سورة البقرة - آیت 101

وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے ایک رسول اس کی تصدیق کرنے والا آیا جو ان کے پاس ہے تو ان لوگوں میں سے ایک گروہ نے، جنھیں کتاب دی گئی تھی، اللہ کی کتاب کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا، جیسے وہ نہیں جانتے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٢) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے من عند اللہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کا پیغام براہ راست مستفادہ ہوتا ہے ، جناب قدس سے (آیت) ” وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی “ اس کی ساری زندگی آئینہ ہوتی ہے ، رضائے الہی کا (آیت) ” وھم بامرہ یعملون “ اور وہ تمام پہلی تعلیمات کا مصدق ہوتا ہے لیکن اہل کتاب کی شومی عقل ملاحظہ ہو کہ باوجود ان سب چیزوں کے دیکھنے کے منکر ہی رہے ۔