وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو (بھیجا)، اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں، بے شک تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل آچکی۔ پس ماپ اور تول پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ، یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم مومن ہو۔
حضرت شعیب (علیہ السلام) (ف ١) مدین والوں میں یہ نقص تھا کہ وہ لین دین میں ایماندار نہیں تھے ، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے توحید کے بعد معاملات کی طرف توجہ کی ، اور کہا یہ بددیانتی جائز نہیں ، اس سے اخلاق بگڑتے ہیں ، تم اگر مومن ہو تو ناپ اور تول میں کوئی فریب دغا نہ کرو ، کیونکہ ایمان کا تعلق صرف عبادت اور عبادت گاہ سے نہیں ، بلکہ چھوٹے چھوٹے کاموں میں سے بھی ایمان کا اظہار ہونا چاہئے ، اگر مسجد میں ذکر خدا ہے تو ہاٹ میں بیٹھ کر بھی اسے فراموش نہ کرو ، اور حقیقت میں یہی سچا مذہب ہے ، جو تمہاری ایک ایک بات سے عیاں ہو ، طویل عبادتیں مشکل ریاضتیں معاملات کی صفائی نہ ہو ، تو کوئی قیمت نہیں رکھتیں ، اللہ نے بدمعاملگی کو فساد سے تعبیر کیا ہے یعنی نظام اخلاق میں ابتری ۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے ، تجارت کو صداقت اور سچائی پر مبنی ہونا چاہئے یہ محض دھوکا ہے ، کہ تجارت میں جھوٹ کے سوا چارہ نہیں ، بات یہ ہے کہ ہم چونکہ ہر بات میں جھوٹ کے عادی ہو رہے ہیں اس لئے تجارت میں بھی سچائی سے کام نہیں لیتے ورنہ سچائی سے قطعا گھاٹے کا اندیشہ نہیں ، ضرورت اس بات کی ہے کہ بازار میں ساکھ پیدا کرلی جائے ، جب لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے گا ، کہ آپ کے ہیں قیمتیں مقرر ہیں ، اور آپ دھوکا نہیں دیتے تو پھر دیکھئے کس طرح اللہ آپ کی تجارت کو چمکاتا ہے ، اور برکت دیتا ہے ۔