سورة البقرة - آیت 87

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ ۖ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور بلاشبہ یقیناً ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے بعد پے در پے بہت سے رسول بھیجے اور ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو واضح نشانیاں دیں اور اسے پاک روح کے ساتھ قوت بخشی۔ پھر کیا جب کبھی کوئی رسول تمھارے پاس وہ چیز لے کر آیا جسے تمھارے دل نہ چاہتے تھے، تم نے تکبر کیا تو ایک گروہ کو جھٹلا دیا اور ایک گروہ کو قتل کرتے رہے۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(87۔93)۔ بھلا اور قصہ بھی سن لو ! جس کے سننے کے بعد تم جان جاؤ گے کہ واقعی یہ لوگ اسی سزا کے لائق اور مستوجب ہیں ابتداء سے ہم نے ان پر ہر طرح کے احسان کئے۔ فرعون کی قید سے نکال کر ان کو حاکم بنایا۔ اور ان کی ہدائیت کے لئے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم نے کتاب بھی دی۔ مگر چونکہ طبیعت میں ان کی شرارت اور کجروی تھی۔ اس لئے حضرت موسیٰ کی زندگی ہی میں اس سے بھی الجھتے تھے بعد اس کے تو زیادہ ہی بگڑنے کا موقع تھا۔ اس لئے موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ہم نے اس کے خلیفہ بنائے۔ اور اس کے پیچھے کئی رسول بھی بھیجے مگر ان لوگوں نے ایسے ظلم اور ستم ڈھائے کہ کسی کو قتل کیا اور کسی کو نکال دیا۔ سب سے اخیر ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو روشن معجزے دئیے اور اس کو جبرئیل کے ذریعے سے قوت بھی دی کہ اکثر اوقات مسیح کے ہم رکاب رہتا۔ لیکن انہوں نے کبھی کسی نبی کی کما حقہ تعظیم نہیں کی۔ بلکہ ہمیشہ معاملہ دگرگوں ہی کرتے رہے۔ کوئی ان سے یہ تو پوچھے کہ جب کبھی تمہارے پاس کوئی رسول ایسے حکم لایا جنہیں تمہارے دل نہیں چاہتے تھے۔ تو کیا تم نے ان کے ماننے سے واقعی انکار اور تکبر کیا تھا۔ ایک جماعت کو جھٹلا یا اور ایک کو قتل بھی کیا۔ اس کے جواب میں بڑی دلیری سے اقرار کرتے ہیں اور اپنے زعم باطل کے مطابق اس کی وجہ بتلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے اس لئے ان کو نہیں مانا تھا کہ ہمارے دل محفوظ ہیں ان کی جھوٹی باتیں وہاں تک رسائی نہ کرسکتی تھیں۔ دیکھو تو کیا عذر گناہ بدتر از گناہ کے مصداق ہیں۔ یہ عذر ان کا بالکل غلط ہے یہ ہرگز نہیں کہ وہ جھوٹی باتیں ان کو سناتے تھے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر اور بے ایمانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی ہے پس اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب یہ لوگ کسی سچی بات کو بھی بہت کم مانیں گے ان کی بے ایمانی اور طمع دنیاوی کا ثبوت بین سننا ہو تو اور سنو ! جب اللہ کی طرف سے ان کے پاس ایک کتاب بذریعہ محمد رسول اللہﷺ پہنچی جس کی سچائی کو خوب ہی پہچان چکے ہیں جو ذاتی سچائی کے علاوہ ان کے ساتھ والی کتاب کی اصلیت کو مانتی ہے۔ تو بوجہ محض دنیاوی اغراض کے اس سے ناکاری ہوگئے حالانکہ اس سے پہلے اسی کے وسیلہ سے اپنے مخالف کفار پر فتح یابی چاہا کرتے تھے آڑے وقت میں کہا کرتے تھے۔ خداوندا ! ہم تیرے دین کے خادم اور نبی آخرالزمان کے منتظر ہیں۔ پس تو ہم کو دشمنوں پر فتح دے۔ کیا اس سے یہی زیادہ دنیاداری کا ثبوت ہوگا پس اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ اللہ کی لعنت ہے ان جیسے کافروں پر جو دنیا کے عوض میں دین کو بیچ رہے ہیں۔ اگر غور کریں تو بری ہے وہ چیز جس کے عوض میں اپنی جانوں کو دے چکے ہو اور عذاب الٰہی کے مستحق ہوگئے۔ وہ بدکاری کہ جس کے سبب سے اپنے آپ کو مورد عذاب بناچکے ہیں۔ یہ ہیں کہ اللہ کی اتاری ہوئی (کتاب) قرآن نہیں مانتے نہ بوجہ غلط فہمی کے بلکہ محض حسد سے اس بات کے کہ اللہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے کسی پر اتارے پس اسی وجہ سے تو غضب پر غضب اللہ کا انہوں نے لیا اور دنیا کے عذاب سے بڑھ کر ان کافروں کو قیامت میں نہائیت ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ عوام دنیا دار تو جو چاہیں سو بے پر کے اڑائیں۔ خواص بھی کسی طرح سے کم نہیں جو چاہتے ہیں سو کہہ دیتے ہیں اور جب کوئی بطور نصیحت ان سے کہے کہ اللہ کی اتاری ہوئی (کتاب) کو مان لو تمہاری نجات ہوجائے گی۔ تو اس کے جواب میں کیسی بے ڈھب بات کہتے ہیں۔ کہ ہم تو صاحب ! اسی کتاب کو مانیں گے جو ہماری طرف اتری ہوئی ہے یعنی تورات گویا اسی کتاب پر حصر ہے کہ اسی کو مانیں اور جو اس کے سواہے سب سے انکار ہی کریں گے۔ حالانکہ ہر امر کی تکذیب کے لئے دوباتیں ہوا کرتی ہیں یا تو وہ امر فی نفسہٖ پائیہ صداقت سے گراہو یا وہ کسی عقیدہ سابقہ مسلمہ کے خلاف ہو حالانکہ قرآن میں ان دونوں مواقع میں سے ایک بھی نہیں اپنے ثبوت میں وہ بالکل حق ہے دوسری وجہ بھی اس میں نہیں کہ ان کے کسی عقیدے کے خلاف ہو بلکہ ان کی ساتھ والی کتاب کی تصدیق کرتی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ اس سے انکاری ہوئے جاتے ہیں۔ اور بار بار یہی منہ پر لاتے کہ ہم تو اپنی ہی کتاب کو مانیں گے۔ بھلا ان کا یہ عذر بھی نہ رہے بایں غرض کہ بدرا بدیایدرسانید تو اے رسول ان سے کہہ کہ اگر تم ایماندار ہو اور ہمیشہ سے تورات کو مانتے چلے آئے ہو تو پھر گذشتہ زمانے میں اللہ کے نبیوں کو کیوں قتل کرتے تھے۔ کیا تورات میں نبی کا قتل جائز ہے؟ پس تمہارے ایسے ہی افعال شنیعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تم ہمیشہ سے دنیا کے طالب رہے نہ تم کو تورات سے غرض نہ حضرت موسیٰ سے مطلب۔ پس تمہارا قرآن مجید سے انکار کرنا اور اس انکار کی وجہ یہ بتلانا کہ ہم تورات ہی کو مانتے ہیں اس لئے قرآن کے ماننے کی ہمیں حاجت نہیں۔ بالکل غلط ہے بلکہ بہت سے نبی تورات ہی کی تکمیل کو آئے تم نے ان کو بھی قتل کردیا۔ اگر یہ وجہ تمہاری معقول ہوتی تو ان کو کیوں مارتے؟ اصل وجہ یہ ہے کہ تم ہمیشہ سے اپنی خواہشوں کے تابع رہے اور دین کی آڑ میں بےدینی کے کام کئے گئے۔ چنانچہ اسی کی ایک نظیر اور سنو ! جب تمہارے پاس حضرت موسیٰ اپنی نبوت کی صاف صاف دلیلیں یعنی معجزے لایا اور تم نے اسے تسلیم بھی کیا۔ اور اس نے تم کو انہی معجزات کے ذریعہ فرعون سے نجات دلائی۔ جنگل میں تمہیں چھوڑ کر حسب ارشاد اللہ کوہ طور پر تمہاری ہدایت کے لئے گیا۔ پھر تم نے اس کے پیچھے بچھڑے کو معبود بنالیا اور اس کی پوجا شروع کردی یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہمیشہ سے تمہاری عادت ہی کجروی کی ہے اور نیز تم ظالم ہو۔ اور بھی کئی دفعہ تم نے ایسی ہی کجروی کی۔ سنو تو ! جب ہم نے تم سے باربار سمجھانے کے بعد کوہ طور تم پر کھڑا کرکے عمل کرنے کا وعدہ لیا اور کہا کہ خوب مضبوط قوت سے اس کو پکڑو جو ہم نے تم کو دیا ہے اور جو کچھ ہم کہیں دل لگا کرسنو ! تو تمہارے باپ دادا بولے کہ صاحب ہم نے تو سن لیا اور جی میں ٹھان چکے کہ ہم کرنے کے نہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو طبیعت کی ان میں آزادی۔ اور دوسرے یہ کہ ان کے دلوں میں ان کے کفر کی شامت سے بچھڑے کی محبت رچ گئی تھی۔ تو کہہ دے اگر یہی ایمانداری ہے۔ تو تمہارا ایمان تم کو بری راہ بتلاتا ہے۔ اب بھی اگر تم ایسے ہی ایماندار ہو۔ تو براہ مہربانی اسے چھوڑ دو۔ اگر باوجود صریح الزام کے دعوٰی نجات ہی کئے جاویں۔ اور یہی کہے جاویں کہ قیامت کے دن ہم ہی نجات پاویں گے تو ایسے سینہ زوروں کو جو کسی دلیل کی طرف توجہ نہ کریں اور نہ اپنی ہٹ سے باز آویں۔