وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَٰذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَٰذَا لِشُرَكَائِنَا ۖ فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَىٰ شُرَكَائِهِمْ ۗ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
اور انھوں نے اللہ کے لیے ان چیزوں میں سے جو اس نے کھیتی اور چوپاؤں میں سے پیدا کی ہیں، ایک حصہ مقرر کیا، پس انھوں نے کہا یہ اللہ کے لیے ہے، ان کے خیال کے مطابق اور یہ ہمارے شریکوں کے لیے ہے، پھر جو ان کے شرکا کے لیے ہے سو وہ اللہ کی طرف نہیں پہنچتا اور جو اللہ کے لیے ہے سو وہ ان کے شریکوں کی طرف پہنچ جاتا ہے۔ برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔
(136۔148) اور ایک بات بھی ان کی سنو ! یہ کہتے ہیں کہ جن مویشی کو ہم کان وغیرہ پھاڑ کر بحیرہ سائبہ وغیرہ بناتے ہیں جو ان چوپایوں کے پیٹ کے اندر بچہ ہے وہ اگر زندہ نکلے تو صرف ہمارے مرد کھائیں اور عورتوں کو ان کا کھانا منع ہے اور اگر وہ مرا ہوا ہو تو پھر مرد و عورت سب اس میں حصہ دار ہیں سب کھا سکتے ہیں اس کو یہ لوگ مسئلہ شرعی بتلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اس بیان کا بدلہ سزا دے گا بیشک وہ بڑا حکیم اور علیم ہے۔ ہر ایک کے حال سے مطلع ہے اس کے کام سب باحکمت ہیں دنیا میں جو کچھ وہ کرتا ہے کوئی کام بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ اگر کسی کو لڑکا دیتا ہے تو اس میں بھی حکمت ہوتی ہے اور اگر کسی کو لڑکی دیتا ہے تو وہ بھی حکمت سے خالی نہیں مگر یہ نادان نہیں جانتے ان کو یہی خیال ہے کہ جس کے گھر لڑکی پیدا ہو وہ نہایت ذلیل ہے اس لئے یہ موقع پا کر لڑکیوں کو مار ڈالتے ہیں پس کچھ شک نہیں کہ جو لوگ اپنی مادہ اولاد کو بیوقوفی اور جہالت سے قتل کر ڈالتے ہیں اور محض اپنی تجویز سے اللہ تعالیٰ پر افترا باندھ کر بغیر حکم شریعت اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے حلال رزق کو حرام سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ بڑے ہی ٹوٹے میں ہیں اور سیدھی راہ سے دور بھٹکے ہوئے اور راہ ہدایت سے ہٹے ہوئے ہیں ان جیسی سمجھ بھی کسی کی ناقص ہوگی؟ جب ان کی عقل کا معمولی امور میں یہ حال ہے تو الٰہیات میں کیا رائے لگا سکتے ہیں اور کیا دلائل سمجھ سکتے ہیں تاہم ان کو بالکل بے سمجھائے تو چھوڑنا مناسب نہیں اس لئے ایک ایسے طریق سے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف لے چل اور معرفت حاصل کرا کہ ان کی عقلوں کے مناسب حال ہو۔ پس ان کو بتلا کہ اللہ تعالیٰ جس کی طرف میں تم کو بلاتا ہوں وہ وہی ہے جو ہرے بھرے باغ بیلدار اور غیر بیلدار پیدا کرتا ہے یعنی انگوروں کے باغ جو ٹٹیوں کے اوپر چڑھائے جاتے ہیں اور ان کے سوا جو ایسے نہ ہوں اور کھجوریں اور عام ہر قسم کی کھیتی ہمچوں قسم گیہوں وغیرہ جو کھانے میں مختلف ہوتی ہے اور زیتون اور انار بعض ظاہر باطن میں بھی ملتے جلتے ہیں اور بعض مختلف ہیں۔ تم اس سے نتیجہ پائو کہ ان کا پیدا کرنے والا بھی کوئی ہے اور اس کے حقوق بھی تم پر کچھ ہں۔ اور جب پھلیں تو ان کا پھل کھائو اور کاٹنے کے روز اللہ تعالیٰ کا حق بھی مسکینوں کو دیا کرو۔ اور کثرت پیداوار کو دیکھ کر دہقانوں کی طرح فضول نہ اڑایا کرو۔ مسرف اور فضول خرچ کرنے والے اللہ تعالیٰ کو ہرگز نہیں بھاتے اور دیکھو اللہ تعالیٰ نے چوپایوں میں سے بعض دراز قد بوجھ بردار تمہارے لئے پیدا کئے ہیں جیسے اونٹ‘ گھوڑا اور ہاتھی وغیرہ اور بعض پستہ قد زمین سے لگے ہوئے جیسے بھیڑ‘ بکری وغیرہ جو صرف تمہارے دودھ پینے اور بوقت ضرورت کھانے کے کام آتی ہیں پس تم اللہ کے دئیے ہوئے رزق سے کھائو اور شیطان کی چال نہ چلو کہ دیوے تو اللہ تعالیٰ اور تم اس میں سے حصہ نکالو غیروں کا۔ یہ پیر کی نیاز اور فقیر کی نذر یہ طریق ناپسند شیطانی شرارت کا اثر ہے وہ شیطان تو تمہارا صریح دشمن ہے دیکھو وہ کس کس پیرایہ میں بنی آدم سے دشمنی کرتا ہے۔ ان مشرکوں کے دلوں میں وہم ڈال رکھا ہے کہ بعض حلال جانوروں کو بھی حرام سمجھنے لگ گئے ہیں۔ پھر ایک بات پر جمتے بھی نہیں کبھی کسی نر کو بحیرہ وغیرہ بنا کر حرام سمجھ لیتے ہیں کبھی مادوں سے بھی یہی معاملہ کرتے ہیں۔ لطف یہ ہے کہ حلت حرمت جہاں سے ظہور ہوئے سرے سے اس کے منکر ہیں۔ یعنی نبوت کسی نبی کی اور الہام کسی ملہم کا انہیں تسلیم نہیں سنو ! اللہ تعالیٰ نے چارپائے نر مادہ آٹھ قسم پیدا کئے ہیں۔ بھیڑوں میں زیادہ دو اور بکریوں میں سے زیادہ دو۔ تو ان سے دریافت کر کہ بتلائو اللہ تعالیٰ نے نر جانور حرام کئے ہیں یا مادہ یا جو مادہ کے پیٹ سے نکلے نر ہو یا مادہ مجھے تحقیقی بات بتلائو اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو یا ان میں سے بعض کو حرام کیا ہے پہلے اپنا دعویٰ تو متعین کرو اور بھی سنو ! اونٹوں میں سے نر مادہ پیدا کئے اور گائے کی قسم کے نر مادہ بھی دو پیدا کئے۔ تو ان سے دریافت کر کہ ان میں سے بھی اللہ تعالیٰ نے نر حرام کئے ہیں یا مادہیا جو مادہ کے پیٹ سے نکلے نر ہو یا مادہ کچھ ہو بتلائو دعویٰ متعین کر کے دلیل لائو۔ کیا کسی کتاب میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم بھیجا ہے یا جس وقت اللہ تعالیٰ نے اس بات کا تم کو حکم دیا تھا تم خود اس وقت وہاں موجود تھے؟ اور اپنے کانوں کی سنی ہوئی شہادت دیتے ہو۔ اس بات کا جواب ان کے پاس کچھ نہیں۔ کسی کتاب کا حوالہ نہیں دے سکتے۔ کیونکہ کسی کتاب کے قائل نہیں۔ خود تو کیا ہی موجود ہوں گے۔ مثل مشہور ہے ” کے آمدی وکے پیر شدی“ پس تو ان سے کہہ دے جو لوگ اللہ تعالیٰ کے نام پر جھوٹ لگاتے ہیں کہ لوگوں کو بے سمجھی میں اسی دائو سے گمراہ کریں ان سے بڑھ کر کوئی بھی زیادہ ظالم نہیں۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی شان میں ایسی گستاخی کرنی کہ جو اس نے نہ فرمایا ہو اس کے نام پر کہہ دینا صریح ظلم ہے اور ظلم ایسی بری بلا ہے کہ اپنی حد تک پہنچ کر ہمیشہ کے لئے ہدایت سے محروم کردیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہرگز راہ نہیں دکھایا کرتا تو ان سے کہہ تم تو یونہی اٹکل پچو ہانک رہے ہو یہ حرام وہ حرام میں تو اپنی الہامی کتاب میں کسی کھانے والے کے حق میں جو بہ نیت نیک کھانا چاہے بجز خود مردہ جانور اور خون ذبح کے وقت بہنے والے اور خنزیر کے گوشت کے کوئی چیز حرام نہیں پاتا۔ پس یہ سب حرام اور ناپاک ہیں اور وہ گناہ کی چیز یعنی جو غیر اللہ تعالیٰ کے نام سے پکاری جائے اور کسی پیر یا فقیر یا ولی یا شہید کے نام پر بطور تقرب اس کو مانا جائے یہ بھی حرام ہے پھر بھی جو شخص یہ نیت نیک نہ بے فرمانی کرنے والا اور نہ حد ضرورت سے تجاوز کرنے والا بھوک سے مجبور ہو اور اس مجبوری کی حالت میں مذکورہ حرام چیزیں کھالے تو اس پر گناہ نہیں خدائے تعالیٰ بڑا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے اور یہودیوں پر ہم نے ناخن والے جانور یعنی چرے ہوئے کھروں والے گائے اور بھیڑ بکریوں کی چربی حرام کی تھی۔ مگر اس قدر جو ان کی پشت یا آنتوں میں یا ہڈیوں سے چمٹی رہے وہ حلال تھی یہ ان کی سرکشی کی سزا تھی۔ گو وہ اپنی پردہ پوشی کو کچھ کا کچھ بیان کریں ان کی کتابیں اور ان کی روش ہی جتلا رہی ہے کہ ان کا بیان صحیح نہیں ہوتا اور ہم (یعنی اللہ) تو یقینا سچے ہیں پھر بھی تیری تکذیب کریں تو تو کہہ کہ تمہارا پروردگار بڑی وسیع رحمت والا ہے جو تم کو اس سرکشی اور جورو ظلم پر سردست مواخذہ نہیں کرتا۔ ہاں یہ بھی جانو کہ جس وقت وہ پکڑنا چاہے فوراً پکڑ سکتا ہے اور اس کا عذاب مجرموں کی قوم سے تو کسی طرح سے بھی پھرا نہیں کرتا کوئی اس کا رد کرنے والا نہیں مگر چونکہ تیری موجودگی میں عذاب کا بھیجنا مناسب نہیں کیونکہ تو رحمۃ للعالمین ہے اس لئے جو چاہتے ہیں کہتے ہیں۔ ابھی تو آئندہ کو مشرک کہتے کہتے یہ بھی کہیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی شے کو اپنے پر حرام سمجھتے پس جب اللہ تعالیٰ ہی کی مرضی ہے تو پھر ہمیں کیا گناہ۔ دراصل ان کی یہ حجت بازی ہے۔ اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے حکموں سے انکار کیا تھا وہ بھی ایسے ہی بے ہودہ گوئی کیا کرتے تھے اور یہی کہتے رہے یہاں تک کہ آخر کار ہمارے عذاب کا مزہ چکھا یہ لوگ اپنی کم علمی اور نفسانیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی مشیت اور رضا میں فرق نہیں سمجھتے۔ مشیت اس کی تو ایسی ہے کہ کوئی کام بغیر اس کی مشیت کے ہونا ممکن ہی نہیں لیکن یہ ضرور نہیں کہ ہر ایک کام دنیا میں اس کی مشیت سے ہو وہ اس سے راضی بھی ہو۔ دنیاوی حاکموں کو دیکھو کہ رعایا بہت سے کام حسب اجازت قانون کرتی ہے مگر حکام ان سے راضی نہیں ہوتے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ قانون کو سمجھنا چاہئے کہ جب کوئی نیک یا بدکام کرنے لگے اللہ تعالیٰ اس کے حسب منشاء اسباب مہیا کردیتا ہے بعد ازاں جیسا کام ہو ویسا عوض دیتا ہے تو کہہ تمہارے پاس اس دعویٰ پر کہ مشیت الٰہی پر رضا الٰہی لازم ہے کوئی علمی دلیل ہے جو ہمیں بتلا سکو۔ کیا بتلائو گے تم تو صرف وہموں پر چلتے ہو اور محض اٹکلیں ہی مارتے ہو