فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِن كُنتُم بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ
تو اس میں سے کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے، اگر تم اس کی آیات پر ایمان رکھنے والے ہو۔
(118۔135) پس تم مسلمانو ! ان گمراہوں کی چال میں نہ آنا جو غیر اللہ کے نام کی چیزیں اور خود مردہ جانور بھی سب کھا جاتے ہیں اور مسلمانوں پر حلت حرمت کے مسئلہ میں معترض ہوں ان کی ایسی باتیں لا یعنی ہیں اگر تم اللہ کے حکموں کو مانتے ہو تو جن چیزوں پر اللہ تعالیٰ کا نام ذکر ہو انہی کو کھائو۔ اور ان کے سوا تقریباً غیر اللہ کے نام پر پکاری ہوئی کوئی چیز مت کھائو۔ اللہ تعالیٰ کا نام جن چیزوں پر ذکر کیا جاوے ان کے نہ کھانے میں تمہارا کیا عذر ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے حرام چیزیں سب تم کو مفصل بتلا دی ہیں پس حلال کھائو اور حرام سے بچو مگر مجبوری اور لاچاری کی حالت میں معاف بھی ہے یعنی اگر ایسی حالت میں تم ہو کہ حلال طعام تم کو نہ ملے اور بغیر حرام ماکول کے گذارہ محال ہو تو تھوڑا سا بقدر سدر مق جس سے تمہاری جان بچے کھالو تو معاف ہے اور یاد رکھو بہت سے لوگ دنیا میں ایسے بھی ہیں کہ بلاتحقیق اپنی خواہشوں کے مطابق لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں تو بے فکر رہ یقینا تیرا پروردگار حدود اطاعت سے گذر جانے والوں کو خوب جانتا ہے تم ان کی بدصحبت سے دور رہیو اور ظاہری باطنی گناہ چھوڑ دو۔ نہ مجالس میں بداخلاقیاں کرو نہ پوشیدگی میں کیونکہ جو لوگ گناہ کے کام کرتے ہیں وہ اپنی کرتوتوں کے برے بدلے پاویں گے اور سنو ! بڑا ضروری کام تمہارا یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق مضبوط رکھو اور ماسوا سے بے نیاز رہو۔ اس تعلق اللہ کریم کا ظاہری نشان یہ ہے کہ جن چیزوں پر اللہ کا نام ذکر نہ ہو ان کو مت کھایا کرو۔ یعنی جن اشیاء پر اللہ تعالیٰ کے سوا غیر کا نام بطور تقرب پکارا جائے یا دل میں خیال غیر کا رکھا جائے کہ وہ اس کو قبول کر کے مراد پوری کر دے یا کرا دے تو ایسی چیزوں کو خواہ جانور ہوں یا دیگر قسم کی اشیاء خوردنی ان کو مت کھائو اور سمجھ رکھو کہ یہ کام یعنی اس قسم کی چیزوں کا کھانا یقینا ناپاک ہے اور یہ مشرک جو تم سے آ کر کج بحثی کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ شیاطین اپنے ڈھب کے لوگوں کو شبہات ڈالتے ہیں کہ وہ تم سے جھگڑیں یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ تم سے کج بحثی کرتے ہیں اور اگر تم ان کے کہنے میں آ کر ان کے پیچھے چلے اور غیر اللہ کے نام کی چیزیں کھانے لگے تو تم بھی مشرک بن جائو گے۔ کیا یہ نادان اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ ہم یعنی اللہ تعالیٰ جو کسی بے علم کو جو مثل بے جان کے ہے علم دیں اور اس کو نور اور روشنی عطا کریں وہ لوگوں میں روشنی پھیلاتا ہو اور یہ چاہتا ہو۔ لوگ بھی مثل میرے ہدایت یاب ہوں کیا وہ اس جیسا ہے جو کئی ایک جہالت کے اندھیروں میں محبوس ہے ایسا کہ ان اندھیروں سے نکل ہی نہیں سکتا۔ کچھ شک نہیں کہ علم دار مثل جاندار کے ہے اور بے علم جاہل مثل بے جان کے ہے۔ مگر ان جاہلوں کو اپنی ہی جہالت بھلی معلوم ہوتی ہے ہمیشہ سے اسی طرح کافروں کو اپنی ہی بدکاریاں شرک کفر بھلی معلوم ہوا کرتی ہیں جیسے تیرے مخالف بڑے بڑے دولت مند لوگ ہیں۔ اسی طرح ہم نے ہر ایک بستی میں بدکاروں کو بڑا بنایا ہے کہ وہ علاوہ اپنی بدکاریوں کے اس بستی میں دل کھول کر دائو چلائیں اور لوگوں کو بہکائیں اور اپنے سوار پیادے دوڑا لیں۔ کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ جتنی کچھ دائو بازیاں کرتے ہیں اپنے ہی حق میں کرتے ہیں اور وہ نقصان کو نہیں سمجھتے کہ کیا کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کا بھی یہی حال ہے کہ کسی کی نہ سنتے ہیں نہ مانتے ہیں جب کبھی ان کے پاس کوئی نشان معجزہ وغیرہ آتا ہے یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی معجزہ یا نشان قدرت اللہ کریم اور دلیل صحت نبوت محمدی کی دیکھتے ہیں تو بجائے تسلیم کرنے کے کہتے ہیں کہ جب تک ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی طرح راہ راست پیغام نہ ملے ہم نہیں مانیں گے اللہ تعالیٰ جس جگہ اور جس شخص کو اپنی رسالت اور پیغام رسانی سپرد کرتا ہے اس کو خوب جانتا ہے ان بدکاروں کو ان کی بدکرداری اور دائو بازی کی وجہ سے اللہ کے ہاں سے ذلت اور سخت دکھ کی مار پہنچے گی تو جانیں گے پس یہ سن رکھیں آئندہ کی جانے دیں اسی دنیا میں پہچان لیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں نیک بد کی یہی تمیز ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت کرنا چاہے اس کا سینہ بے کینہ اسلام کے قبول کرنے کو کھول دیتا ہے اور اسلامی احکام پر عمل کرنا اس کو آسان ہوجاتا ہے اور جس کو اس کی گردن کشی اور نخوت کی وجہ سے گمراہ ہی کرنا چاہے اس کے سینے کو نہایت تنگ کردیتا ہے۔ اسلام کا آسان سا مسئلہ بھی اس کی سمجھ میں بدقت و دشواری آتا ہے بلکہ آتا ہی نہیں عمل کرنا سخت مشکل اور ناگوار ہوتا ہے۔… گویا آسمان پر اس کو چڑھنا پڑتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بے ایمانوں پر پھٹکار ڈالا کرتا ہے تو سن رکھ اور لوگوں کو سنا دے یہی اسلام تیرے پروردگار کی سیدھی راہ ہے جو لوگ نصیحت پانے کو ہوں انکے لئے ہم نے اس دعویٰ (صحت اسلام) کے کھلے کھلے نشان اور دلائل بیان کر دئیے ہیں۔ وہ اسی قرآن پر غور کرنے سے کامیاب ہوسکتے ہیں ان ہی کے لئے اس کے عوض اللہ کے ہاں دارالسلام ہے یعنی سلامتی کا گھر انہیں رہنے کو ملے گا اور ان کے نیک اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہی ان کا متولی ہے اس نے ان کی تولیت خود اپنے ذمہ لی ہوئی ہے اور جو لوگ اللہ تعالیٰ سے دور ہٹے ہوئے ہیں جس روز اللہ ان سب کو جمع کرے گا اور گمراہ کرنے والے یا گمراہی کا سبب بننے والے شیاطین سے (کہے گا) اے جنوں کی جماعت شیطانوں ! تم نے بہت سے آدمی دنیا میں گمراہ کئے اب بتلائو آدمیوں میں سے ان کے دوست اور تابعدار یہ سمجھ کر کہ شائد ساری خفگی انہی بہکانے والوں پر پڑے گی جھٹ سے کہیں گے اللہ کریم ! دنیا میں ہم ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں یعنی ان کے بہکائے ہوئے ہم برے کام کرتے اور یہ ہم کو بہکا کر اپنی من مانی بات پوری کرتے تھے۔ اے اللہ ! جو وقت تو نے ہمارے لئے مقرر کیا تھا اب ہم اس پر آپہنچے ہیں ہم اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں تو جانتا ہے ہمارا اس میں قصور نہیں۔ انہیں لوگوں نے ہمیں خراب کیا تھا۔ پس یہی مستوجب سزا ہیں اللہ تعالیٰ کہے گا تم سب کا ٹھکانا آگ ہے۔ اس میں ہیشہ رہو گے سزا تو تمہاری یہی ہے آگے اللہ تعالیٰ کے اختیار۔ اگر کسی کو سزا سے رہا کرنا چاہے تو اسے کون روک سکتا ہے اور یہ اس کا چاہنا سراسر حکمت ہوتا ہے کیونکہ تیرا پروردگار بڑا باحکمت اور بڑے علم والا ہے جس طرح ان گروہ چیلوں کو آگ میں رہنے کا حکم دیا ہے اسی طرح ہم یعنی اللہ تعالیٰ بعض ظالموں کو ان کی کرتوتوں کی وجہ سے بعض کے ساتھ ملا دیں گے اور ایک قسم کے بدکاروں کو ایک جا عذاب میں جمع کر کے کہیں گے اے جنوں اور انسانوں کی جماعت کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے پیغمبر نہ آئے تھے جو تم کو میرے حکم سناتے اور اس دن قیامت کی جزا و سزا کے ملنے سے تم کو ڈراتے وہ کہیں گے ہم خود اپنے مخالف گواہ ہیں کہ بیشک رسول آئے تھے اور وہ یہ بھی تسلیم کریں گے کہ ہم کو دنیا کی زندگی نے فریب دیا تھا۔ اور اپنے مخالف شہادت دیں گے اور اقرار کریں گے اور مانیں گے کہ ہم کافر تھے۔ یہ نبیوں کا بھیجنا تو اس لئے ہے کہ تیرا پروردگار لوگوں کو ظلم سے اور بے خبری میں ہلاک نہیں کیا کرتا۔ ایسا نہیں کرتا کہ کسی قوم کی طرف ہادی تو بھیجے نہیں جو ان کو برے بھلے کاموں میں تمیز بتلاوے اور یوں ہی بے خبری میں ان پر تباہی ڈال دے اس لئے وہ ضرور نبی بھیجتا ہے اور ہدایت کرتا ہے پھر لوگ ایمان اور کفر کی وجہ سے خود ہی مختلف ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر ایک کی کمائی کے مناسب انکو درجے اور مراتب ملیں گے کیونکہ تیرا پروردگار ان بندوں کے کاموں سے بے خبر نہیں۔ جو کچھ بندے کرتے ہیں انہی کا فائدہ ہے اور تیرا پروردگار تو سب سے بے نیاز ہے اسے کسی کی بندگی سے فائدہ نہیں اور گناہ سے نقصان نہیں اور بڑی رحمت والا ہے وہ ایسا بے نیاز ہے کہ اگر چاہے تو سب کو دنیا سے اٹھا لے جائے اور تم سے پیچھے جس کو چاہے تمہارا خلیفہ اور جانشین بنا دے جیسا کہ تم کو تمہارے بزرگوں کی نسل سے پیدا کیا۔ پس تم یقینا جانو کہ جو تم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیک و بدکاموں کا وعدہ ملتا ہے ضرور آنے والا ہے اور تم اللہ تعالیٰ کو کسی طرح کہیں بھاگ کر یا غائب ہو کر یا مقابلہ کر کے عاجز نہیں کرسکتے بلکہ جہاں تم ہوتے ہو۔ وہیں اس کی پولیس اور فوج خود تمہارے ہی اندر موجود ہے۔ اگر تیری ایسی راست راست تعلیم بھی نہیں مانتے تو تو کہہ دے بھائیو ! پڑے اپنے طریق پر عمل کرو میں بھی کئے جاتا ہوں جس کا انجام بخیر ہوگا اور جس کو کامیابی ہوگی تم خود ہی معلوم کرلو گے یہ تو اللہ تعالیٰ کے ہاں قاعدہ مقرر ہے کہ ظالم اور بے انصاف خصوصاً اللہ تعالیٰ پر افترا گھڑنے والے مراد نہیں پایا کرتے۔ اصل تو یہ ہے کہ شرک تو ان میں ایسا جاگزین ہوگیا ہوا ہے گویا ان کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔ اڑے وقت میں تو اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں اور آسائش کے وقت کا یہ حال ہے کہ اللہ کی پیدا کی ہوئی کھیتی اور چوپایوں میں سے اللہ کا حصہ مقرر کرتے ہیں اور ایک حصہ اپنے مصنوعی معبودوں کا پھر اپنے خیال میں خود ہی سمجھ رکھتے ہیں اور تعیین کو چھوڑتے ہیں کہ یہ حصہ مثلاً دائیں جانب کا ڈھیر تو اللہ کا ہے اور یہ مثلاً بائیں طرف کا انبار ہمارے مقرر کردہ اللہ تعالیٰ کے ساجھیوں کا جن کو وقت پر پکارا کرتے ہیں۔ اور ان سے مدد چاہا کرتے ہیں۔ باوجود اس کے پھر ان کے برتائو کی عجیب ہی کیفیت ہے کہ جو ان کے مصنوعی ساجھیوں کا ہو وہ تو کسی طرح ہوا وغیرہ سے اڑ کر بھی اللہ کی طرف نہ جانے پاوے اور جو اللہ تعالیٰ کے حصہ کا ہو۔ وہ کسی ذریعہ نابالغ بچے کے اٹھانے سے یا ہوا کے اڑانے سے غرض بوجہ مّنَ الوجوہان کے مصنوعی ساجھیوں کی طرف پہنچ سکتا ہے اس کی وجہ بھی سنو کیا بنا رکھی ہے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تو بے نیاز ہے اسے کسی قسم کی حاجت نہیں اور نہ وہ ایسی معمولی حرکات سے ناراض ہوتا ہے اور یہ ہمارے شریک اور پیر فقیر چونکہ درحقیقت مخلوق ہیں اس لئے ان کے حوصلے بھی اتنے نہیں۔ یہ تھوڑی سی بات سے خفا ہو کر تباہی ڈال دیا کرتے ہیں نالائق کیسے برے اور غلط فیصلے کرتے ہیں اتنا بھی نہیں جانتے کہ پیدا تو سب کچھ اللہ تعالیٰ کرے یہ کون ہیں جن کے ہم اس کے ساتھ حصے مقرر کردیتے ہیں جس طرح اس فعل قبیح کی برائی ان کی سمجھ میں نہیں آتی بلکہ اس کو اچھا جانتے ہیں اسی طرح بہت سے مشرکوں کو مادہ اولاد کا مار ڈالنا ان کے بنائے ہوئے معبودوں نے مزین کر دکھایا ہے تاکہ انجام کار ان پر تباہی لاویں یعنی غضب الٰہی کے سبب بنیں اور ان کا اصل دین ان پر مشتبہ کر ڈالیں یعنی مشرکوں کا مادہ اولاد کا مار ڈالنا ان کے شرک کی شامت سے ہے کیونکہ شرک کرنے سے انسانی دماغ میں اس قسم کا فتور آجاتا ہے کہ وہ معمولی بداخلاقیوں کو بداخلاقی نہیں سمجھتا پس تو ان سے کنارہ کر اور یہ سمجھ رکھ کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو کبھی بھی یہ کام نہ کرتے۔ بھلا ان کی مجال ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت پر مجبور کرے تو ہدایت یاب نہ ہوں۔ لیکن اس نے اختیاری افعال میں اختیار دے رکھا ہے کیونکہ جس فعل کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار نہ ہو اس کے کرنے پر ثواب اور نیک جزا مرتب نہیں ہوا کرتی یہی حکمت ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو جبراً ہدایت یاب نہیں کرتا۔ پس تو ان کو اسی افترا پردازی میں چھوڑ دے اور دیکھو تو کیسے من گھڑت مسئلے بنا رکھے ہیں کہتے ہیں یہ چوپائے اور کھیتی ہماری رسمی پابندی سے متروک الاستعمال ہیں ان کو کوئی نہیں کھا سکتا۔ مگر وہی جس کو ہم اپنے خیال میں مناسب جان کر کھلانا چاہیں اور کئی ایک چوپائے ایسے بھی ہیں جن پر سوار ہونا حرام سمجھا گیا ہے اور کئی چوپائوں پر اللہ کا نام بھی ذکر نہیں کرتے بلکہ اپنے مصنوعی معبودوں کے نام ہی پر تصدق و قربان کرتے ہیں ان ڈھکوسلوں اور مصنوعی مسائل کو اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کر کے اللہ تعالیٰ پر افترا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی افترا پردازی کی سزا ان کو دے گا