سورة البقرة - آیت 76

وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ قَالُوا أَتُحَدِّثُونَهُم بِمَا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاجُّوكُم بِهِ عِندَ رَبِّكُمْ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جب وہ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لائے تو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے اور جب ان میں سے بعض بعض کی طرف اکیلا ہوتا ہے تو کہتے ہیں کیا تم انھیں وہ باتیں بتاتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں، تاکہ وہ ان کے ساتھ تمھارے رب کے پاس تم سے جھگڑا کریں، تو کیا تم نہیں سمجھتے؟

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(76۔82)۔ یہ تو انکی علمی کاروائی تھی اب عملی کیفیت بھی سنو ! ہر ایک کام میں اپنا مطلب مدنظر رکھتے ہیں اور جب کبھی مسلمانوں سے ملتے ہیں تو بوجہ اپنی دنیا داری کے ان سے بگاڑنا نہیں چاہتے بلکہ بطور دھوکہ دہی اور مطلب براری کے کہتے ہیں کہ ہم نے تمہارے دین کو مدت سے مانا ہوا ہے کہ سچی ہے اور واقعی اس نبی کی بابت پہلے ہی سے حضرت موسیٰ نے خبردی ہوئی ہے اور جب ایک دوسرے سے اپنی مجالس میں ملتے ہیں تو بطور ملامت کے کہتے ہیں۔ کہ تم بھی عجیب احمق ہو۔ کیا ان مسلمانوں کو وہ راز بتاتے ہو۔ جو اللہ تعالیٰ نے خاص تم ہی کو بتلائے ہیں کیا ان مسلمانوں کو اس غرض سے بتلاتے ہوتاکہ وہ تم سے بعد مرنے کے اسی دلیل سے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھگڑا کریں۔ اگر یہی خیال ہے تو بڑے ہی نادان ہو۔ کیا تم سمجھتے نہیں ہو کہ اس کا ضرر کس پر ہوگا۔ افسوس ہے ان پر کیا یہ گمان کرتے ہیں کہ انکے چھپانے سے چھپ جائے گا۔ اور نہیں جانتے کہ اللہ ان کی باتیں جو ظاہر کرتے ہیں اور جو چھپاتے ہیں سب جانتا ہے ایک گروہ کا تو یہ حال ہے جو سن چکے ہو۔ اور بعض ان میں سے ایسے ناواقف ہیں جو کتاب میں سے کچھ بھی نہیں جانتے ہاں اپنی بے جا امنگیں ضرور لئے ہوئے ہیں حالانکہ ان امنگوں کو درست ہونے کا بھی ان کو علم نہیں بلکہ یوں ہی اٹکلیں چلاتے ہیں اصل یہ ہے کہ اہل کتاب دو قسم پر ہیں۔ ایک تو عالم ہیں جن کو دعوٰی ہے کہ ہم اہل دانش اور اسرارالٰہی سے واقف ہیں۔ دوسرے عوام ہیں اہل علم عوام کا لانعام کو دھوکہ میں ڈالنے کی غرض سے اپنی ہاتھ کی لکھی ہوئی باتوں کو اللہ کی طرف لگاتے ہیں۔ پس افسوس ہے ان نام کے عالموں کو جو اپنے ہاتھ سے ایک منصوبہ لکھتے ہیں۔ پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اس بناوٹ سے ان کی غرض کوئی ہدائیت خلق اللہ نہیں حاشا وکلا بلکہ سارے حیلے حوالے اس لئے کرتے ہیں تاکہ اس کے عوض میں کسی قدر دنیا کا مال حاصل کریں دیکھو تو کیسا بڑا ظلم کرتے ہیں۔ پس افسوس ہے ان کے حال پر ان کے لکھنے کی وجہ سے اور افسوس ہے ان پر ان کی کمائی سے منجملہ ان کی دروغگوئی کے یہ ہے کہ اپنے تئیں محبوب الٰہی ہونے کے مدعی ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم چاہے کچھ بھی کریں۔ ہم کو چند روز سے زیادہ آگ کا عذاب نہ ہوگا۔ نہایت سے نہایت چالیس روز تک اس لئے کہ ہمارے بزرگوں نے چالیس روز تک بچھڑے کی عبادت کی ہے۔ اے رسول تو ان سے کہ دے کہ تم نے کوئی اللہ سے اس امر کا اقرار لیا ہے کہ جو چاہو سو کیا کرو میں تمہیں کبھی بھی مواخذہ نہ کروں گا۔ اگر کوئی عہد لیا ہوا ہے تو بیشک قابل اعتماد ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عہد کے خلاف نہیں کرے گا۔ مگر واقعی بات یہ ہے کہ اس امر کا اقرار ہی کوئی نہیں۔ تو کیا اللہ کی نسبت ایسی بے ہودہ باتیں کہتے ہو۔ جو خود بھی نہیں جانتے۔ ہاں سنو ! حق یہ ہے کہ جو شخص گناہ کرے اور اس درجہ اس کی بداعمالیاں پہنچیں کہ اس کے ایمان کو بھی گھیر لین یعنی ہر قسم کے کفر وشرک وغیرہ میں مبتلا ہو۔ تو ایسے لوگ بے شک آگ میں جائیں گے نہ صرف چند روزہ بلکہ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ اور جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائیں گے اور موافق مرضی اس کی کے اچھے کام کریں ایسے لوگ بیشک جنت میں جائیں گے۔ نہ صرف جائیں گے بلکہ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے تعجب کہ یہود کس منہ سے کہتے ہیں کہ ہم کو عزاب نہ ہوگا جو چاہیں ہم کئے جائیں۔