يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاءَ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان لوگوں کو جنھوں نے تمھارے دین کو مذاق اور کھیل بنا لیا، ان لوگوں میں سے جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے اور کفار کو دوست نہ بناؤ اور اللہ سے ڈرو، اگر تم ایمان والے ہو۔
(57۔56) چونکہ ان لوگوں کو دین و مذہب سے کوئی۔ مطلب نہیں صرف دنیا کے بندے ہیں اس لئے تم کو حکم ہوتا ہے کہ مسلمانو ! ان دنیا داروں یہودیوں اور عیسائیوں بلکہ عام کافروں کو مخلص دوست نہ سمجھا کرو (یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا) غیر قوم سے خفیہ تکالیف اٹھا اٹھا کر آخر کار ان سے مذہبی کاموں میں علیحدگی کرنے کی بابت یہ آیت نازل ہوئی (منہ ) کہیں ان کی صحبت کا اثر تم کو بھی نہ ہوجائے معمولی کاروبار سے منع نہیں دنیاوی لین دین بیشک کرو اس سے روک نہیں یہ لوگ تمہارے مقابلہ پر ایک دوسرے کے دوست ہوجاتے ہیں۔ گو وہ دوستی ان کی آپس کی بھی دیکھا دیکھی چند روزہ ہوتی ہے تاہم وہ ایک دوسرے سے ملیں گے اور تمہارے ساتھ نہ ملیں گے۔ پس یاد رکھو جو ان سے دوستی لگاوے گا وہ قیامت کے روز انہیں میں سے ہوگا۔ بیشک ایسے ظالموں کو جو ذاتی مفاد کے مقابل قومی نقصان کی پرواہ نہ کر کے ان سے دوستی لگائے گا اللہ تعالیٰ ہدایت خاصہ میں سے حصہ نہیں دے گا۔ جس سے فائز مرام ہوسکیں باوجود اس تاکیدی حکم کے پھر بھی تو اے رسول ! بیمار اور کمزور دل والوں کو دیکھتا ہوگا کہ ان بےدینوں کے معاملے اور خیر خواہی میں تگ و دو کر رہے ہیں جس کی وجہ زبانی بتلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں خوف ہے کہ مبادا ہم مسلمانوں کو کوئی مصیبت نہ پہنچ جائے کسی لڑائی میں انہی کی فتح اور مسلمانوں کی شکست ہو تو پھر اگر ہم ان سے ملاپ نہ رکھتے ہوں گے تو ایسے آڑے وقت میں یہ ہم سے کیونکر رفاقت کریں گے غرض ان کا طریق عمل بالکل اس شعر پر ہے بشر کو چاہئے ملتا رہے زمانہ میں کسی دن کام بہ صاحب سلامت آہی جاتی ہے مختصر یہ کہ ان کو اسلام کی حقیقت کا یقین نہیں اور مطلب کے یار ہیں اس لئے ادھر ادھر بھٹکتے پھرتے ہیں پس تم مسلمانو ! اللہ سے بہتری کی امید رکھو وہ دن دور نہیں کہ اللہ تعالیٰ تم کو فتح مبین دے گا (جیسے صلح حدیبیہ۔ ١٢) یا اپنے پاس سے کوئی اور غلبہ کی صورت پیدا کر دے گا پھر یہ منافق اپنے جی کی پوشیدہ باتوں پر جو اس وقت دل میں رکھتے ہیں۔ خودبخود شرمندہ ہوجائیں گے کہ ہائے ہم کس خیال میں تھے اور ہو کیا گیا اور اس وقت مسلمان بھی ان کو شرمندہ اور ذلیل کرنے کو آپس میں باتیں کرتے ہوئے کہیں گے کیوں صاحب یہ وہی ہیں جو بڑے زور کی قسمیں کھایا کرتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اب کیا بات ہے کہ باوجود اس اظہار اخلاص کے اس وقت جو موقع خوشی ہے بجائے مسرور کے محزون نظر آتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ دل سے ہمارے ساتھ نہ تھے۔ چونکہ ان کی کوششیں ضائع ہوئی ہیں اور سب کیا کرایا اکارت گیا ہے پس یہ اب صریح نقصان اٹھائے ہوئے ہیں جن کی مثل بالکل اس کے مطابق ہے ” دونوں سے گئے پانڈے۔ نہ حلوا ملا نہ مانڈے“ عموماً دین فروشوں کا یہی حال ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنا ہی کچھ کھوتے ہیں۔ کسی کا کیا لیتے ہیں۔ پس مسلمانو ! سن رکھو کہ جو شخص تم میں سے اپنے دین سے برگشتہ ہوگا کیگ کا کچھ نہ بگاڑے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت کیلئے ایسے لوگ تیار کرے گا جن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے مسلمان ایمانداروں سے نرم کافروں مرتدوں کے مقابلہ میں مضبوط ہوں گے۔ کیا مجال کہ کافروں کی نرم چال یا دھوکہ دہی ان کو نرم کرسکے وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور اس جہاد سے روکنے والے اور شرمندہ کرنے والے ملامت گر کی ملامت کا خوف نہ کریں گے دراصل یہ فضل الٰہی ہے جسے وہ چاہے دے اور اللہ بڑی وسعت والا علم والا ہے پس تم اللہ کے ہوجائو اور کسی سے دوستی کی امید نہ رکھو کیونکہ تمہارے حقیقی دوست اللہ اور رسول اور وہ مسلمان ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور باوجود ان سب کاموں کے اللہ تعالیٰ کے آگے عاجز ہیں۔ گو ان تینوں قسم کی دوستی جداگانہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی دوستی کا اثر یہ ہے کہ وہ بذات خود کام سنوار دیتا ہے اور رسول اور مومنوں کی دوستی کا یہ اثر ہے کہ وہ اپنے دوست کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں یہ نہیں کہ خود کوئی ایسا کام جو اللہ تعالیٰ کے اختیار کا ہو سنوار سکیں۔ اس اصول کو یاد رکھو اور ان تینوں سے تعلق پیدا کرو کیونکہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول اور ایمانداروں سے دوستی گانٹھتے ہیں وہ ہمیشہ ظفریاب ہوتے ہیں اس لئے کہ وہ اللہ کی جماعت ہے پس اللہ کی جماعت ہی غالب ہوا کرتی ہے جبھی تو مسلمانو ! تم کو حکم ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اپنے دین کو ہنسی مخول بنا رکھا ہے جو جی میں آیا کرو مذہب سے کوئی غرض نہیں۔ صرف نیشنلٹی (قومیت) جن کا اصول ہے یعنی جن کو تم سے پہلے کتاب ملی تھی یعنی یہود و نصاری دوسرے عام کافروں کو جو اسی قبیل سے ہوں ان میں سے کسی کو مخلص دوست نہ بنائو اور اللہ سے ڈرتے رہو اگر تم ایماندار ہو تو اس کا خلاف نہ کرو۔ تم دیکھتے نہیں کہ اپنے مذہب کو ہنسی مخول بنانے کے علاوہ تم جب نماز کے لئے اذان دیتے ہو حالانکہ وہ بھی ذکر الٰہی ہے جو کسی مذہب میں منع نہیں اسے بھی یہ لوگ ہنسی مخول کرتے ہیں کیونکہ یہ لوگ جہالت میں ایسے بڑھے ہوئے ہیں کہ سمجھتے ہی نہیں۔ تو اے پیغمبر ! ان سے کہہ کہ اس تمہاری رنجیدگی کی وجہ کا ہے۔ کیا بجز اس کے بھی کوئی عیب ہم میں پاتے ہو کہ ہم اکیلے اللہ تعالیٰ پر اور جو کتاب ہماری طرف اور جو ہم سے پہلے اتری ہے۔ ان سب پر ہم یقین رکھتے ہیں اور ہم اپنی شریعت کے پابند ہیں اور تم میں بہت سے بے فرمان ہیں۔ ذرا یورپ کو عموماً اور انگلینڈ کو خصوصاً دیکھو تو سہی کس طرح وہاں آج کل تہذیب جو دراصل تخریب اخلاق ہے کوڑیوں سیر بکتی ہے۔ پس اگر تو اے پیغمبر ! ان سے کہہ یہ تو کوئی عیب نہیں جس کی وجہ سے تم ہم سے رنجیدہ اور برگشتہ ہو۔ میں تم کو اس سے بھی جس کو تم عیب سمجھے ہوئے ہو بہت بڑے عیب والے بتلائوں وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی تھی اور ان پر غضب اتارا اور ان میں سے بعض کی بدکاریوں کی وجہ سے بندر اور بعض کو سور بنایا تھا اور جنہوں نے ماسوائے اللہ تعالیٰ کے بچھڑے وغیرہ کی عبادت کی۔ پس تم خود ہی سمجھ لو کہ یہ کون لوگ ہیں ” درخانہ اگر کس است یک حرف بس است“ پس یہی لوگ برے درجے والے ہیں اور یہی لوگ راہ راست سے دور بھٹکے ہوئے ہیں۔ اور ان کی چالبازی سنو ! ان کتاب والوں میں سے بعض نے یہ وطیرہ اختیار کر رکھا ہے کہ بغرض مطلب براری جب تمہارے (مسلمانوں کے) پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم بھی تمہارے دین پر مدت سے ایمان لائے ہوئے ہیں حالانکہ جیسے کفر کو جی میں لے کر مجلس میں آئے تھے۔ ویسے ہی اسے لے کر نکل گئے ہیں اور جو کام مخفی طور سے یہ لوگ کرتے تھے اور کرتے ہیں اللہ ان کو خوب جانتا ہے۔ تو تو اے پیغمبر ! ان میں سے بہتیروں کو دیکھے گا کہ گناہ اور ظلم زیادتی اور حرامخوری میں بڑے ساعی ہوں گے سوچیں تو بہت ہی برے کام کرتے ہیں اگر غور سے دیکھیں تو ان کو اپنے کاموں کی برائی خود ہی معلوم ہوجائے بھلا جو ان کے مشائخ بزرگ پیر اور پادری لوگوں کو اسلام سے روکتے اور برگشتہ کرتے پھرتے ہیں۔ وہ ان کو جھوٹ بولنے اور حرام خوری سے کیوں منع نہیں کرتے۔ ہر ایک دیندار کی نگاہ میں بہت ہی برا کرتے ہیں ایسے معمولی اخلاق بھی ان کو نہیں بتلاتے تو پھر بتلاتے ہی کیا ہیں۔ یہ بھی ان کے پادریوں اور ان کے مشائخ کے سکوت کا نتیجہ ہے کہ یہودی عام اخلاق سے تجاوز کر کے حسب فحوائے ” بازی بازی باریش بابا بازی“ اللہ تعالیٰ تک بھی بے ادبیاں کرنے لگے ہیں کہ مسلمانوں کو زکوٰۃ کا حکم ہوتے سن کر کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ آج کل تنگ ہے جو مسلمانوں سے قرض مانگتا ہے اللہ تعالیٰ کرے انہیں کے ہاتھ تنگ ہوں اور ان کے بکواس بکنے سے ان پر پھٹکار پڑے نالائق نہیں سمجھتے کہ زکوٰۃ کا حکم کرنا اللہ تعالیٰ کے تنگدست ہونے کی دلیل نہیں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ تو کبھی تنگ ہوا ہی نہیں بلکہ دونوں ہاتھ اس کے کھلے ہیں ایسے کہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے کوئی اس کو روکنے والا نہیں۔ ( شان نزول (وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ یَدُاللّٰہِ) یہودیوں پر مسلمانان حال کی طرح بدکاریوں کی پاداش میں تنگدسی نے غلبہ کیا تھا تو قرآن میں مسلمانوں کو زکوٰۃ دینے کا حکم سن کر کہنے لگے اللہ تعالیٰ بھی تنگدست ہو رہا ہے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی (معالم بتفصیل منہ) اتنا تو یہ کمبخت بھی مانتے ہیں مگر چونکہ تیرے ساتھ ان کو خاص ضد ہے اس لئے جو بات تیرے منہ سے نکلتی ہے خواہ وہ ان کی بھی مسلمہ ہو انکار کر بیٹھتے ہیں۔ اسی ضد اور حسد کا نتیجہ ہے کہ جو کلام تیرے پروردگار کی طرف سے تجھ کو ملا ہے ان میں سے بہتوں کو سرکشی اور کفر بڑھاتا ہے کیونکہ یہ اسے سن کر انکار کرتے ہیں اور بضد ہوتے ہیں جیسے جیسے انکار کرتے ہیں کفر میں ترقی کرتے جاتے ہیں۔ ہم نے بھی اس کی سزا ان کو مختلف اقسام کی دی ہے۔ حکومت ان سے چھین لی ہے اور عداوت اور بغض ان میں قیامت تک ڈال دیا ہے جب کبھی مسلمانوں کے مقابلہ میں جمع ہو کر لڑائی کی آگ بھڑکائیں گے اللہ تعالیٰ اس آگ کو بجھا دے گا اور ان کے فتنہ و فساد کو جو کئے پھرتے ہیں ایک دم ملیامیٹ کر دے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فسادیوں کو دوست نہیں رکھتا۔ اگر یہ اہل کتاب ایماندار ہوتے اور پرہیزگاری کا طریق اختیار کرتے تو ہم ان سے ان کے گناہ دور کردیتے اور آئندہ قیامت کے روز ان کو نعمتوں کے باغوں میں داخل کرتے اور اگر وہ توریت انجیل پر اور جو کلام اللہ تعالیٰ کے پاس سے ان کی طرف اترا ہے یعنی قرآن۔ اس پر پورا جیسا کہ چاہئے عمل کرتے تو البتہ ہم ان کو ایسی فارغ البالی عطا کرتے کہ اوپر سے بارش عمدہ باموقع سے محظوظ ہوتے اور نیچے سے زمین کے پھل پھول بکثرت پیدا ہوتے جن کو خوب بافراغت کھاتے بعض لوگ ان میں سے اس حال میں بھازچھے متوسط چال ہیں لیکن اکثر تو ان میں سے بہت ہی برے کام کرتے ہیں تو اے رسول ان کی پرواہ نہ کر اپنی تبلیغ احکام میں لگا رہ۔ جو کچھ تیری طرف تیرے پروردگار کے ہاں سے اترا ہے سب پہنچا دے کوئی بھلا سمجھے یا برا مانے اس کی پرواہ نہ کر اور یاد رکھ کہ فرضاً اگر تو نے ایسا نہ کیا یعنی سارا نہ پہنچایا بلکہ کچھ حصہ خواہ کسی قدر ہی قلیل ہو چھپا لیا تو ایسا سمجھا جائے گا کہ گویا تو نے اس کا پیغام کچھ بھی نہیں پہنچایا اور اگر بتقاضائے بشریت کچھ لوگوں سے خوف زدہ اور ہراساں ہے تو سن لے کہ اللہ تعالیٰ ہی تجھے لوگوں کی تکلیف سے محفوظ رکھے گا۔ کافروں کو تیری ایذا رسانی اور ہلاکت تک کبھی بھی راہ نہ دے گا۔ (شان نزول (یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ) نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مخالفوں کی کثرت اور زور کو دیکھ کر ملول خاطر ہونا ایک طبعی امر تھا۔ آپ کی تسلی اور تشفی کو یہ آیت نازل ہوئی (حاصل معالم) (یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ۔ الجوامع میں حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت جابر بن عبداللہ سے منقول ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ حکم دیا کہ علی مرتضیٰ کو بجائے اپنے کل آدمیوں کا حاکم مقرر کریں۔ اور لوگوں کو بھی اس امر سے مطلع کردیں۔ پس آں حضرت کو یہ اندیشہ ہوا کہ یہ امر میرے اصحاب میں سے ایک گروہ کو ناگوار گزرے گا۔ اور لوگ یہ کہیں گے کہ آں حضرت اپنے ابن عم کے نفع کے لئے کہہ رہے ہیں اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور بروز غدیر خم آں حضرت نے علی مرتضیٰ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر لوگوں کو دکھایا اور یہ فرمایا مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہٗ اور یہی آیت پڑھ کر سنائی۔ تفسیر عیاشی میں بھی روایت سے مختصراً اسی قدر واقعہ نقل ہوا ہے۔ تفسیر مجمع البیان میں ثعلبی اور خستکانی وغیرہ کئی مفسرین اہل سنت سے قریب قریب یہی واقع درج کیا گیا ہے۔ کافی میں جناب امام محمد باقر (علیہ السلام) سے ایک حدیث منقول ہے جس کا ایک جزو یہ ہے کہ ولایت جناب امیر المومنین کا حکم جمعہ کے دن کہ عرفہ بھی تھا آیا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ حکم تھا کہ اکمال دین و اتمام نعمت علی ابن ابی طالب کی ولایت کا حکم سنا دینے پر موقوف ہے۔ جناب رسالت مآب نے یہ عرض کیا کہ میری امت چونکہ ابھی ابھی سے کفر سے داخل اسلام ہوئی ہے تو اگر میں اپنے ابن عم کے بارے میں اطلاع دوں گا تو کوئی کچھ کہے گا۔ آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ یہ بات میں نے زبان سے کسی سے نہیں کہی تھی۔ بلکہ صرف میرے دل میں ایسا خیال گذرا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا دوسرا حکم تاکیدی پہنچا۔ جس میں مجھے عذاب سے ڈرایا گیا تھا۔ اگر اس حکم کو نہ پہنچائوں چنانچہ یہ پوری آیت یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ الخ نازل ہوئی تو جناب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی مرتضیٰ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا اَیُّھَا النَّاسُ جو انبیاء مجھ سے ہو گذرے ہیں ان میں سے ہر ایک کا اللہ تعالیٰ نے ایک وقت مقرر کردیا تھا جب ان کو بلایا چلے گئے۔ اب قریب ہے کہ میں بھی بلایا جائوں اور چلا جائوں۔ سوال مجھ سے بھی کیا جائے گا اور تم سے بھی۔ اس وقت تم کیا کہو گے؟ سب نے عرض کیا کہ ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے احکام اللہ تعالیٰ پہنچائے۔ ہماری خیر خواہی کی جو کچھ آپ کے ذمہ تھا اسے آپ نے ادا فرمایا۔ پس اللہ تعالیٰ تمام پیغمبروں اور رسولوں سے افضل جزا آپ کو دے۔ آں حضرت نے یہ سن کر تین مرتبہ ارشاد فرمایا اللھم اشھد۔ پھر ارشاد ہوا کہ اے گروہ مسلمین ! یہ علی ( علیہ السلام) میرے بعد تم سب کا ولی اور والی ہے۔ تم میں سے جو حاضر ہیں وہ غائب کو یہ خبر پہنچا دیں۔ جناب امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ تعالیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ خلق اللہ تعالیٰ پر علم اللہ تعالیٰ کے اور اس دین کے جو خدائے تعالیٰ نے پسند فرمایا تھا امین تھے حق امانت ادا فرما گئے۔ نیز انہی حضرت نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ولایت علی کا حکم دیا اور ان پر آیت کریمہ اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ الخ نازل فرمائی۔ اور اولی الامر کی ولایت واجب کی۔ مگر لوگ سمجھتے نہیں تھے کہ وہ چیز کیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ ولایت کی تفسیر ان کے لئے ایسی ہی کردیں جیسے کہ نماز روزہ و حج و زکوٰۃ کی تفسیر کی تھی۔ جب اللہ تعالیٰ کا یہ حکم پہنچا تو جناب رسول اللہ تعالیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی قدر تردد ہوا۔ خوف یہ تھا کہ لوگ مرتد نہ ہوجائیں اور میری تکذیب نہ کریں۔ پس پروردگار عالم کی طرف رجوع کی تو ادھر سے یہ وحی آئی یٰاَیُّھَا الرَّسُوْلُ الخ حضرت نے امر اللہ تعالیٰ کی تعمیل کی۔ یوم عذیر خم الصلوۃ جامعۃ پکارے جانے کا حکم دیا۔ اور علی کو مولا مقرر فرمایا اور لوگوں کو یہ حکم دے دیا کہ جو حاضر ہے وہ غائب کو اس امر کی خبر کر دے۔“ (ترجمہ قرآن مولوی مقبول احمد شیعہ حاشیہ ص ١٨٨) اقول : کس قدر کوشش ہے قرآن مجید کو چیتان بنانے کی تاکہ کسی طرح مسئلہ متنازعہ (خلافت علی بلا فصل) کا ثبوت قرآن مجید سے مل جائے۔ قابل توجہ :۔ شیعہ اصحاب ذرہ سا غور فرمائیں تو انہیں اپنے اس خیال کی غلطی واضح ہوجائے وہ یہ کہ اس آیت سے تبلیغ خلافت علی (بلا فصل) اگر مقصود ہے تو کیا وجہ ہے کہ خلافت علی کو صریح لفظوں میں ذکر نہ فرمایا۔ مثلاً یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ بلغ ما انزل الیک من خلافۃ علی اتنا اہتمام جس امر کا ہو کہ اس کو قرآن مجید کی نص صریح میں ذکر کیا جائے کیا وجہ ہے کہ اسے صاف لفظوں میں ذکر نہ کیا جائے تاکہ اس کے سمجھنے میں بے وجہ اختلاف پیدا نہ ہو۔ اللہ اللہ کتنی دلیری ہے کہ بات بنانے کے لئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضور (علیہ السلام) اس کی تبلیغ کرنے سے ڈرتے تھے اس لئے مکرر سہ کرر حکم پہنچا کہ ڈرو نہیں ۔ اہل ایمان خود ہی اندازہ کرلیں کہ یہ روایت اور تفسیر کہاں تک قابل التفات ہے۔ (منہ) تو یہ بھی ان سے کہہ دے کہ اے کتاب والو ! جب تک تم توریت انجیل پر اور جو ان کے بعد مع قرآن شریف تمہاری طرف اللہ تعالیٰ کے ہاں سے اترا ہے اس پر پورا پورا عمل نہ کرو گے تمہاری کسی بات کا ٹھیک نہیں اے پیغمبر ! کیا یہ تیری مانیں گے؟ ہرگز نہیں ان کو تو تیرے سے ایسی عداوت ہے کہ جو کچھ تیرے رب کی طرف سے تجھ کو ملا ہے ان میں سے بہتوں کو شرارت اور کفر بڑھاتا ہے پس تو ان کافروں کی قوم پر کسی طرح سے افسوس نہ کر ان کو تو اپنی شرافت پر ناز ہے کہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں ہم شریف ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں دستور ہی اور ہے۔ وہاں شرافت آبائی بغیر لیاقت نمائی کے ہیچ ہے وہاں کا تو دستور یہ ہے کہ مسلمان قوم سے ہوں یا یہودی یا صابی لا مذہب ہوں خواہ عیسائی۔ کوئی بھی ہو جو ان میں سے اللہ اکیلے پر اور پچھلے دن کی زندگی پر پختہ ایمان لائیں گے اور اخلاص سے نیک عمل کریں گے ان کو نہ تو کسی قسم کا خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں گے ہم نے متقدمین بنی اسرائیل سے بھی یہی وعدہ لیا تھا اور نیک اعمال کی تاکید کی تھی… اور اس تاکید کو مؤکد کرنے کے لئے ان کی طرف کئی ایک رسول بھی بھیجے مگر وہ اپنی شرافت آبائی پر ایسے غراں ہوئے کہ شریعت کی انہوں نے کچھ بھی قدر اور عظمت نہ سمجھی بلکہ جب کبھی کوئی رسول ان کے پاس ان کی خواہشات کے خلاف تعلیم لاتا تو کتنوں کی تکذیب کرتے اور کتنوں کو جان سے ہی مار ڈالتے اور یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ اس تکذیب اور قتل سے ہم کو کوئی عذاب اور نقصان نہ ہوگا۔ پس اس خیال میں پھنس کر اور بھی اندھے اور بہرے ہوگئے پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر مہربانی کی ان کی حالت کو سنوارا ان کی پریشانی کو یکجا جمع کردیا دنیاوی عزت بخشی مگر پھر بھی ان میں سے بہت سے اندھے بہرے ہوگئے اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کو دیکھ رہا ہے۔ یہاں تک بگڑے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی بھی ان کو معرفت نہ رہی حالانکہ یہ معرفت اصل ایمان ہے جب ہی تو ان کے حق میں یہ کہنا صحیح ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے وہ کافر ہیں اللہ تعالیٰ سے منکر ہیں نادان ہیں اتنا نہیں سمجھتے کہ مسیح نے خود کہا تھا اے بنی اسرائیل اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے اس کے ساتھ کسی کو ساجھی نہ بنائو بیشک جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بنا وے گا اللہ تعالیٰ اس پر بہشت اور آخری زندگی کی خوشحالی حرام کر دے گا۔ اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ اور ایسے ظالموں کا کوئی حمائتی نہ ہوگا۔ یہ تعلیم مسیحی کجا اور ان غلط گوئوں کا مذہب کجا۔ لطف یہ ہے کہ پھر ایک بات پر جمتے بھی نہیں کبھی تو صاف مسیح کو اللہ تعالیٰ کہہ دیتے ہیں اور صاف لکھ دیتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کو پہاڑ پر نظر آنے والا مسیح ! ہی تھا۔ کبھی تینوں باپ (خدا) بیٹے (مسیح) اور روح القدس کا مجموعہ اللہ تعالیٰ بنا دیں۔ دیکھو انجیل مرقس۔ ١٢ باب فقرہ ٢٩ ! دیکھو مفتاح الاسرار ص ١٤ پس جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تین معبودوں میں کا ایک ہے وہ بھی کافر ہیں۔ دراصل اللہ تعالیٰ سے منکر ہیں دہریوں سے بدتر اور نہیں جانتے کہ دلائل عقلی اور نقلی سے یہی ثابت ہے کہ معبود ہاں حقیقی معبود اکیلا ہی ہے اور کوئی نہیں۔ اگر یہ اس کہنے سے جو یہ کہتے ہیں باز نہ آئے تو جو ان میں سے مرتے دم تک کافر رہیں گے ان کو سخت دکھ کی مار ہوگی تو کیا یہ سن کر اور سمجھ کر بھی اللہ تعالیٰ ہاں حقیقی معبود کی طرف نہیں جھکتے اور سابقہ گناہوں پر اس سے بخشش نہیں مانگتے اور نہیں جانتے کہ اللہ بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے یہ تو اپنے ضد میں ماننے کے نہیں تاہم جہان تو سننے والوں سے خالی نہیں۔ مذکورہ نقلی دلیل کے علاوہ ایک عقلی دلیل سے بھی ان کے اس خیال کو کہ مسیح میں بھی الوہیت تھی باطل کر۔ (اس آیت کی تفسیر اور مسئلہ الوہیت مسیح کی پوری کیفیت معہ تردید جلد ثانی حاشیہ نمبر ٥ میں ملاحظہ ہو۔ ١٢) پس ان کو سنا کہ مسیح تو اللہ کا صرف رسول تھا اس سے پہلے بھی کئی ایک رسول گذر چکے ہیں اور اس کی ماں بھی ایک پاکدامن اللہ تعالیٰ کی نیک بندی تھی وہ دونوں ماں بیٹا کھانا کھایا کرتے تھے پھر معبود کس طرح ہوئے۔ دیکھ ہم کس طرح کے دلائل بیان کرتے ہیں اور ان کو دیکھ یہ کہاں کو بہکے جاتے ہیں ان کو اتنا بھی ہوش نہیں کہ جو کھانے کا محتاج تھا اس کو ہم خدایا جزو اللہ تعالیٰ کیونکر کہتے ہیں تو اور ایک طرح سے انہیں سمجھانے کو کہہ کیا مسیح تم کو کچھ نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے جب کہ وہ اپنی تکالیف کو بھی نہ ہٹا سکا حالانکہ ان کے ہٹانے کی دعائیں کرتا تھا۔ تو تمہارے نفع یا نقصان کا اس کو اختیار کیونکر ہوا تو پھر کیا تم اللہ کے سوا ان چیزوں کی بھی عبادت کرتے ہو جو تمہارے نفع و نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے۔ رکھیں کیسے جب کہ اصل بنیاد نفع نقصان کی یعنی دور و نزدیک کے حاجتمندوں کی فریادوں کا سننا اور کمال علمی سے ان کے دل کے حال پر بھی مطلع ہونا ان میں نہیں۔ کیونکہ اللہ ہی ہر ایک کی سننے والا ہر ایک کی حاجت کو جاننے والا ہے کوئی دوسرا اس صفت میں اس کا شریک نہیں تو ایک طریق نرمی سے ان کو کہہ اے کتاب والو کسی کی ضد اور عداوت سے یا اپنی کم فہمی سے دین میں ناحق زیادتی اور کجی کی راہ اختیار نہ کرو اور یہ نہ سمجھو کہ ہمارے پہلے لوگ یہی کہتے چلے آئے ہیں اس لئے ہم اپنے آبائی مذہب کو کیوں کر ترک کریں۔ ان واہیات خیالات کو چھوڑ دو اور اپنے سے پہلے لوگوں کی جو خود بھی گمراہ ہو لئے اور بہتوں کو سیدھی راہ سے گمراہ کر گئے مذہب میں ان کی خواہشوں پر نہ چلو اور اس بات پر تو مطلقاً ناز نہ کرو کہ ہم اسرائیل کی اولاد ہیں کیا تم نہیں جانتے کہ بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا تھا ان پر حضرت دائود اور حضرت مسیح ابن ! مریم کی زبانی اللہ تعالیٰ کی لعنت اور پھٹکار پڑی تھی کیونکہ ایک تو وہ بے فرمانی کرتے اور حدود خداوندی سے تجاوز کرتے تھے۔ دوئم جس برائی کے خود مرتکب ہوتے اس سے لوگوں کو بھی نہیں روکتے تھے۔ پس لوگ بے روک ٹوک برے کام کرتے جس سے ایک تو بدکاری پھیلتی دویم شریعت اور احکام الٰہی بالکل دب جاتے۔ غور کرتے تو بہت ہی برا کرتے تھے ان کے پیشوائوں کے اس فعل کا اثر ہے کہ اب بھی تو ان میں سے بہتوں کو دیکھ رہا ہے کہ مسلمانوں کو جو توحید خداوندی اور خاندان نبوت کے بھی قائل ہیں ان سے مخالف ہیں تو صرف نبوت محمدیہ میں ہیں تاہم یہ لوگ ان کو چھوڑ کر کافروں بت پرستوں سے دوستی لگاتے ہیں یہ وتیرہ انہوں نے اپنے حق میں بہت ہی برا اختیار کیا ہے جس کا نتیجہ یہ پیدا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر سخت ناراض ہے اور آخرت میں یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ جہنم کے عذاب میں رہیں گے اور اگر یہ اللہ پر اور اس نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور جو اس کی طرف قرآن شریف اترا ہے اس پر ایمان لاتے تو اس کی برکت سے یہ ایسے پرہیزگار ہوتے کہ ان مشرکوں اور کافروں کو دوست نہ بناتے جن کی دوستی سے ان کو توریت میں بھی منع کیا گیا تھا لیکن اب جو ان کی یہ حالت ہے تو اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ بہت سے ان میں سے بدکار اور بے راہ ہیں اس بدکاری کی وجہ سے ہی ایسے بہکے ہوئے ہیں کہ مسلمانوں سے عداوت کر کے مشرکوں کے ہم پلہ ہو رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ تو مسلمانوں کے حق میں سب لوگوں سے زیادہ ضد کرنے میں یہودیوں اور مشرکوں کو بڑھے ہوئے پاوے گا۔ (شان نزول (وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَہَمُ) حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ستر آدمی سفیر بھیجے تھے قرآن شریف سن کرنہایت متاثر ہوئے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم) کیونکہ ان کی طبیعتوں میں دنیا کا میلان اور محبت سب سے زیادہ ہے یہی جڑ ہے سب گناہوں کی۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو نصاریٰ یعنی مسیحی کہتے ہیں ان میں سے بعض کو جن کا ذکر آگے آتا ہے مسلمانوں سے محبت کرنے میں سب سے زیادہ قدم بڑھے ہوئے پاوے گا کیونکہ ان میں علماء اور مشائخ ہیں اور یہ لوگ ان کی صحبت کے پاک اثر سے حق کے قبول کرنے میں تکبر نہیں کرتے بلکہ جب ان کو ایمانداری کی باتیں سنائی جائیں تو فوراً قبول کرتے ہیں اور جب اس رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اترا ہوا کلام قرآن سنتے ہیں تو تو دیکھتا ہے کہ حقانی تعلیم پہچاننے سے تیرے سامنے ان کی آنکھیں آنسو بہاتی نظر آتی ہیں اور بڑی آرزو کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے۔ کہتے ہیں۔ مولا ! ہم اس قرآن پر ایمان لائے پس تو ہم کو دین حق کی تصدیق کرنے والوں بلکہ اس کی سچی شہادت دینے والوں میں لکھ رکھ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارا اس میں عذر ہی کیا ہے کہ ہم اللہ پر اور جو ہمارے پاس سچی تعلیم آئی ہے اس پر ایمان نہ لائیں اور اس بات کی امید کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم کو نیکوں کی جماعت میں شامل کرے گا۔ پس ان کے اس اخلاص ہی کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس کہنے کے صلے میں ان کو ایسے باغ عطا کئے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں نہ صرف چند روزہ بلکہ ہمیشہ ہمیشہ ان ہی میں رہیں گے۔ کیوں نہ ہو خلوص والے نیکوں کا یہی بدلہ ہے۔ اور ان کے مقابل جو کافر ہیں اور ہمارے حکموں کی تکذیب کرتے ہیں وہی جہنم کے قابل ہیں۔