فَأَمَّا مَن طَغَىٰ
پس لیکن جو حد سے بڑھ گیا۔
(37۔46) اس روز کا فیصلہ یہ ہوگا کہ جس نے دنیا میں الٰہی حکموں سے سرکشی کی ہوگی ایک طرف اللہ کی شریعت اس کو بلاتی تھی دوسری طرف اس کا نفس یا اس کی سوسائٹی اس کو اپنی طرف کھینچتی تھی وہ اللہ کی شریعت کی پرواہ نہ کرتا تھا یہی اس کی سرکشی تھی جو اس نے کی اور آخرت پر دنیا کو ترجیح دی تھی یعنی دنیاوی فوائد یا دنیاوی جماعت کو الٰہی شریعت پر مقدم سمجھا تو ایسے لوگوں کے لئے جہنم ہی ٹھکانہ ہوگا جہاں سے وہ نہ خود نکل سکیں گے نہ ان کو کوئی نکال سکے گا اور جو کوئی اللہ کے مقام یعنی رتبہ شان سے ڈرا ہوگا اور جس نے اپنے نفس امارہ کو ناجائز خواہشوں سے روکا ہوگا بس اس کا ٹھکانہ جنت ہوگا یہ واقعات سب اس روز ہوں گے جس روز کا نام قرآن مجید میں الساعۃ بھی ہے یعنی آخری گھڑی اس لئے منکرین قیامت اے نبی تجھ سے ساعت قیامت کی بابت پوچھتے ہیں کہ وہ کب ظاہر ہوگی بتا کہ ہم اس سے پہلے پہلے توبہ کر کے جنت کے مستحق ہوجائیں ان کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس ساعت کے متعلق تیرا کیا فرض ہے یہ کہ تو بتا دے کہ آنے والی ہے یہ نہیں کہ یہ بتا کہ کب آئے گی اس کا انتہائی علم اللہ ہی کو ہے کیونکہ اس کا انجام کار اللہ ہی کو ہے کیونکہ اس کا انجام کار اللہ ہی کے ہاتھ ہے تیرا رتبہ اتنا ہے کہ جو اس ساعت قیامت سے ڈرے تو اس کو سمجھا دے کہ اس کے آنے سے پہلے کچھ کرلو آج تو یہ سوال پر سوال کرتے ہیں مگر جس روز اس کو آنکھوں سے دیکھیں گے ایسے بے خبر ہوجائیں گے گویا وہ دنیا میں دن کا آخری وقت رہے ہوں گے یا صبح کا ناشتہ کا وقت اور بس سچ ہے۔ حال دنیارا بپر سیدم من از فرزانہ گفت آں خواب ست یا بادست یا افسانہ اللھم لا تجعلنا منھم