وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا
ان (فرشتوں) کی قسم جو ڈوب کر سختی سے ( جان) کھینچ لینے والے ہیں!
(1۔14) سنو جی ! ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ایک روز آنے والا ہے جس میں تم سب اللہ کے سامنے جواب دہ ہوں گے اس کو یوم الجزا کہتے ہیں چونکہ تم لوگ منکر ہو اس لئے ہم اپنا بیان حلفیہ دیتے ہیں کہ قسم ہے فرشتوں کی ان جماعتوں کی جو بڑی سختی اور بے عزتی سے بدکاروں کی روحیں نکالتی ہیں علم بلاغت کا قاعدہ ہے کہ منکر کے سامنے کلام مؤکد بقسم بولا جاتا ہے (مطول) منہ اور ان جماعتوں کی قسم ہے جو نیک لوگوں کی روحیں خوشی خوشی عزت کے ساتھ نکالتی ہیں اور مجاہدین کی تیز چلنے والی سواریوں ! کی قسم ہے جو ایسی تیز چلتی ہیں گو یا وہ پانی میں بے روک ٹوک تیرتی ہیں نیز گھوڑے کو سابحہ کہتے ہیں امرء القیس اپنے گھوڑے کی تعریف میں کہتا ہے مسح اذا ما السابحات علی الونی (معلقہ) اور نیکوں میں بڑھنے والوں کی قسم ہے اور ان دینی سیاسی کام کے مدبرین کی قسم ہے جو ملک کے کام کا احسن تدبیر سے انتظام کرتے ہیں ان قسموں سے یہ بتانا مقصود ہے کہ تمہارے اعمال نیک وبد کا بدلہ ضرور ملے گا جس روز پہلا نفخہ ہلا دینے والا زمین کو ہلا دے گا تو اس کے پیچھے آنے والا دوسرا نفخہ آئے گا۔ پہلا فنا کا ہوگا دوسرا بعثت کا اس روز کئی دل یعنی دلوں والے انسان مارے خوف دھڑک رہے ہوں گے ان کی آنکھیں مارے دہشت کے جھکی ہوں گی اسی حال میں سب کا فیصلہ کیا جائے گا جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں داخل کئے جائیں گے قیامت کا ذکر سن کر کہتے ہیں کیا ہم مر کر ایک دفعہ پھر پہلی زندگی میں لوٹائے جائیں گے جب ہماری ہڈیاں سڑ گل جائیں گی تو ہم اٹھائے جائیں گے) ضرور اٹھائے جائو گے یہ سن کر کہتے ہیں یہ واپسی تو عقل سے بعید" ہونے کی وجہ سے بہت نقصان دہ ہوگی کیونکہ ہم نے اس زندگی میں برے برے کام کئے ہیں اگر دوبارہ زندہ ہو کر جزا وسزا ملی تو ہماری خیر کہاں بھلا سڑی گلی ہڈیاں کہاں زندہ ہوں اور کہاں ہم سزا پائیں۔ یہ تو محض وہمی باتیں ہیں حالانکہ یہ سب کچھ اللہ کی قدرت کے تحت ہے پس اس کی حقیقت سوائے اس کے نہیں کہ وہ ہمارے حکم سے اسرافیل کی ایک آواز ہوگی پس دو مردگان فوراً میدان محشر میں سطح زمین پر آجائیں گے آواز سن کر کچھ بھی دیر نہ کرسکیں گے