إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلَالٍ وَعُيُونٍ
یقیناً پرہیزگار لوگ اس دن سایوں اور چشموں میں ہوں گے۔
(41۔50) ان کے مقابلے کے متقی لوگ بڑی نعمتوں کی چھائوں‘ ٹھنڈے چشموں اور من بھانے پھلوں کے باغوں میں عیش کرتے ہوں گے مزے عیش کی جگہ میں نہ رہیں گے بلکہ ان کو کہا جائے گا کہ اپنے کئے اعمال کی برکت سے خوش گوار کھائو پیو نیک لوگوں کو ہم اسی طرح بدلہ دیں گے کہ وہ ہر طرح کی عیش و آرام میں ہوں گے اور ان کو کسی طرح سے تکلیف نہ ہوگی اس روز مکذبوں کے لئے افسوس ہوگا ہاں اے مشرکو اس روز کے آنے سے پہلے تم زندگی کے چند روز کھالو اور مزے اڑا لواس میں شک نہیں کہ تم لوگ بداعمال ہو اس روز مکذبوں کے لئے افسوس ہوگا دیکھو تو ان کے مجرم ہونے میں کچھ شک ہے ؟ کہ جب ان کو کہا جاتا ہے کہ اللہ کے حکم قرآن کی اطاعت کرو تو اطاعت نہیں کرتے بلکہ تکذیب کرتے ہیں اسی لئے اس روز مکذبوں کے لئے افسوس ہوگا قرآن مجید کو تو سنتے اور مانتے نہیں پھر اس کے سوا کس کلام پر یقین کریں گے۔ اٰمَنَّا باللّٰہِ وَمَا اُنْزِلَ اِلَیْنَا آیت میں لفظ جمعنا ماضی ہے مگر ہم نے اس کا ترجمہ (کم) کی وجہ سے مستقبل سے کیا ہے کیونکہ میدان قیامت میں تو سارے لوگ بوقت واحد مخاطب ہوں گے پھر اس وقت تم ” اور اولین میں فرق کیونکر ہوگا۔ ہاں بوقت تکلم اور بوقت نزول قرآن یہ تفریق صحیح ہوسکتی ہے کہ ” تم“ سے مراد حاضرین اور اولین سے مراد گذشتہ لوگ جیسے فرمایا قل ان لاولین والاخرین لمجموعون الی میقات یوم معلوم تو کہدے کہ تم سے پہلے اور پچھلے سب جمع کئے جائیں گے۔ منہ قرآن مجید کی متعدد آیات میں رکوع سجود کا لفظ آیا ہے چنانچہ فرمایا اذا قیل لھم اسجدوا للرحمن قالوا وما الرحمان انسجد لما تامرنا اس قسم کی جتنی آیات ہیں ان میں رکوع اور سجود سے مراد اطاعت ہے اس لئے کہ آیت نے صاف کہہ دیا ہے۔ اذا قرء علیھم القرآن لا یسجدون بل الذین کفروا یکذبون (پ ٣٠۔ ع ٩) کافروں پر جب قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ (اطاعت) نہیں کرتے بلکہ تکذیب کرتے ہیں اس لئے ہم نے اس جگہ ارکعو کا ترجمہ اطاعت سے کیا ہے۔ منہ