أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً ۚ وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْتَنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ ۗ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا
کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو، پھر جب ان پر لڑنا لکھا گیا اچانک ان میں سے کچھ لوگ، لوگوں سے ڈرنے لگے، جیسے اللہ سے ڈرنا ہو، یا اس سے بھی زیادہ ڈرنا اور انھوں نے کہا اے ہمارے رب! تو نے ہم پر لڑنا کیوں لکھ دیا، تو نے ہمیں ایک قریب وقت تک مہلت کیوں نہ دی۔ کہہ دے دنیا کا سامان بہت تھوڑا ہے اور آخرت اس کے لیے بہتر ہے جو متقی بنے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
(77۔91) کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کی در خواست پر ان کو حکم ہوا تھا کہ ابھی جنگ کا موقع نہیں اپنے ہاتھوں کو لڑنے سے بند رکھو اور خاموش ہو کر صبر سے نماز پڑھتے رہو زکوٰۃ دیتے رہو (شان نزول :۔ (قیل لھم کفوا ایدیکم) بعض صحابہ (رض) نے بوجہ تکلیف شدید مشرکین مکہ کے آرزو ظاہر کی تھی کہ ہمیں لڑنے کی اجازت ہو حکمت الٰہی کا تقاضا نہ تھا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اجازت نہ دی جب مدینہ میں حکم نازل ہوا تو بعض سادہ لوح اس سے گھبرائے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم۔) پھر ان کو جب لڑنے کا حکم ہوا تو ان میں سے ایک جماعت لوگوں سے بوجہ بزدلی کے ایسی ڈرتی ہے جیسا کہ اللہ سے ڈرنا چاہئے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور بطور رنج کے کہتے ہیں اے ہمارے مولا کیوں تو نے ہم پر ابھی سے جہاد فرض کردیا کیوں تھوڑی سی مدت تک تو نے ہم کو تاخیر نہ دی تو اے نبی ان سے کہہ دے کہ بھلا کب تک جیو گے دنیا کی زندگانی اور اس کا سامان تو بہت ہی قلیل ہے اس میں دل لگا کر کیا لو گے آخرت کا گھر پرہیز گاروں کے لئے بہت بہتر ہے جہاں تم کو پو را بدلہ ملے گا اور تم پر کچھ بھی ظلم نہ ہوگا یہ بھی ضرور نہیں کہ تم میدان جنگ میں مر ہی جائو اور بغیر جنگ کے ہمیشہ زندہ رہو جہاں تم ہو گے خواہ میدان جنگ میں یا اپنے گھروں میں ہو وقت مقرر پر موت تم کو آدبائے گی گو تم اس وقت بڑے مضبوط قلعوں میں ہو تعجب ہے کہ بجائے فرمانبرداری اور اطاعت کے ایسے ہو رہے ہیں۔ اگر ان کو بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہم کو پہنچی ہے اور اگر اتفاقاً کوئی تکلیف پہنچے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے تو اے نبی ! کہہ کہ سب کچھ اللہ کے تکوینی حکم سے ہوتا ہے۔ ممکن نہیں کوئی وقوعہ بغیر حکم الہی کے ہوسکے پھر ان نافہم لوگوں کو کیا ہوا کہ ایسی سہل بات بھی نہیں سمجھتے کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ کے حکم سے ہوتا ہے گو یہ بات با لکل صحیح ہے کہ ہر کام کے اسباب ہوتے ہیں مگر اس طور سے نہیں جیسے یہ سمجھتے ہیں کہ ایک کی نحوست سے دوسرے کو تکلیف پہنچے ہاں یہ صحیح ہے کہ بعض اوقات انسان کو اس کے اعمال سے تکلیف پہنچ جاتی ہے چاہے وہ غلطی مذہبی یا اخلاقی ہو یا بد پرہیزی ہو اس قاعدے سے کوئی بھی مستثنیٰ نہیں سو اے نبی جو جو تجھ کو بھلائی پہنچتی ہے وہ تو محض اللہ کی مہربانی سے ہے کیونکہ کسی کا اللہ تعالیٰ کے ذمہ کسی طرح کا حق نہیں جو کچھ ہے اس کا احسان ہے اور جو تجھ کو تکلیف پہنچتی ہے وہ تیرے نفس کی غلطی سے ہے یہ ہرگز نہیں کہ تیری نحوست سے ان کو تکلیف پہنچتی ہے ادنیٰ درجے کے آدمی سے بھی ایسا نہیں ہوتا تو تو ایک بڑے درجے کا ہے ہم نے تجھ کو لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے اور تیری تبلیغ رسالت پر اللہ ہی گواہ کافی ہے پھر کیا رسالت کا یہی اثر ہونا چاہئے کہ تیری نحوست سے ان کو تکلیف پہنچ جائے ہرگز نہیں بلکہ تو تو ایسا بابرکت ہے جو کوئی تیرے جیسے رسول کی تابعداری کرتا ہے در حقیقت وہ اللہ کی تابعداری کرتا ہے جس نے اس کو بھیجا ہے اور جو تیری اطاعت سے منہ پھیرتا ہے تیرا کچھ نہیں بگاڑتا کیونکہ ہم نے تجھ کو ان پر نگہبان کرکے نہیں بھیجا کہ ان کے بگڑنے کا تجھ سے جواب طلب ہو ہم ان کی حالت خوب جانتے ہیں علاوہ بد اعمالیوں کے دورخی چال چلتے ہیں تیرے سامنے آکر کہتے ہیں کہ ہم تعمیل ارشاد کو حاضر ہیں پھر جب تیرے پاس سے علیحدہ ہوتے ہیں تو ایک جماعت ان میں سے یعنی سر گروہ ان کے تیرے کہنے کے برخلاف بہتان باندھتی ہے اور مشورے کرتی ہے جس سے لوگوں کو تیری طرف سے نفرت ہو یاد رکھیں ان کے مشورے اور بہتان اللہ کے ہاں محفوظ ہیں جن کی سزا ان کو بھگتنی ہوگی پس تو ان سے منہ پھیر اور انکی پرواہ نہ کر اور اللہ پر بھروسہ کر اس لئے کہ اللہ ہی کار ساز کافی ہے کیا ایسی منصوبہ بازی میں وقت ضائع کرتے ہیں اور اس قرآن شریف پر غور نہیں کرتے کس طرح ان کا رازافشا صاف صاف لفظوں میں کرتا ہے کہ ان کو مجال تکذیب نہیں ہوتی اگر یہ قرآن سوا اللہ تعالیٰ کے کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں کئی طرح کا اختلاف پاتے مضامین میں روانگی عبارت میں مصنف کے خیالات میں اخبار گذشتہ اور آئندہ میں غرض ہر قسم کے احکامات اور واقعات میں چنانچہ یہ امر مشاہدہ اور تجربہ میں آچکا ہے کہ جس مصنف کی عمر بیس پچیس سال کی ہو اس کے خیالات میں نمایاں فرق ہوجاتا ہے مگر قرآن میں کوئی نہیں اگر اختلاف ہوتا تو بے شک ان مخالفوں کو اختلاف کا موقع ملتا اور ان کی چال بازی سنو ! جب ان کے پاس کسی طرف سے امن یا خوف کی بات پہنچتی ہے تو بلا سوچے سمجھے اس کو مشہور کردیتے ہیں۔ تاکہ ملک میں بد نظمی پھیلے اور اگر اس خبر کو سن کر ہمارے رسول تک یا مسلمانوں کے بااختیار لوگوں کے پاس پہنچاتے تو ان میں سے تحقیق کرنے والے اس خبر کو محقق کرتے اور نتیجہ نکالتے اگر اس کی اشاعت میں مصلحت ہوتی تو اشاعت کرتے نہیں تو مخفی رکھتے سچ تو یہ ہے کہ مسلمانو ! اگر تم پر اللہ کا فضل اور مہربانی نہ ہوتی تو موقع بموقع ان منافقوں کی چالبازی سے تم کو مطلع نہ کرتا اور فتح پر فتح نمایاں نہ دیتا تو بجز چند سمجھ دار لوگوں کے تم سب شیطان کے پیچھے ہو لیتے کچھ تو ان منافقوں کی کار گزاری سے اور کچھ تکلیف دینی اور شکست کھانے سے پس تو اس شکر کے بدلہ میں کہ تیری امت کو ان دو بلائوں سے اللہ نے محفوظ رکھا اللہ کی راہ میں مستعد ہو کر جہاد کر خواہ تیرے ساتھ کوئی ہو یا نہ ہو تو اپنی جان ہی کا ذمہ دار ہے سو پورا کر اور مسلمانوں کو بھی اس کار خیر کی رغبت دے اگر مستعد ہو کر اللہ تعالیٰ کے حکموں کی تعمیل کیے جائو گے تو عنقریب اللہ تمہارے دشمنوں یعنی کافروں کی جنگ کو روک دے گا اور ان کو مغلوب کر دے گا پھر وہ تمہارے سامنے ہرگز نہ ٹھہرسکیں گے اس لئے کہ تمہارا حامی اللہ تعالیٰ ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی جنگ زبر دست اور اس کا عذاب بہت ہی سخت ہے اسی طرح تو مسلمانوں کو ترغیب دیتا رہ تیرا کیا حرج ہے مانیں یا نہ مانیں تجھے تو ہر حال میں ثواب مل جائے گا کیونکہ جو شخص کسی کو نیک کام بتلاتا ہے یا بھلے کام کی سفارش کرتا ہے تو کوئی اس پر عمل کرے یا نہ کرے اس ناصح کو تو ضروری ہی اس میں سے حصہ ملتا ہے اور ایسا ہی جو کسی کو برے کام کی راہنمائی کرتا ہے اس کو بھی اس برائی کا حصہ پہنچتا ہے پھر چاہے کوئی چھپ کر کرے یا ظاہر کسی صورت میں اس کی کمی نہ ہوگی کیونکہ اللہ ہر چیز پر محافظ اور نگران ہے۔ ہمیشہ لوگوں کو نیکی کی ترغیب دیتے رہو اور خوش خلقی سے پیش آئو اور خوش خلقی سے ہدائت کی اشاعت ہوتی ہے اس لئے تو ہم تم کو کہتے ہیں کہ جس وقت کوئی تم کو تحفہ دے یا کسی قسم کا سلوک کرے تو اس کے تحفہ سے اچھا تحفہ اس کو دیا کرو یا اس کے سلوک سے اچھا سلوک اس کے ساتھ کیا کرو کم سے کم اسی جیسا دیا کرو غرض کچھ بھی ہو کسی قسم کا سلوک بطور شکریہ ضرور کیا کرو اس سے محبت بڑھتی ہے اور تعلقات اچھے ہوتے ہیں لیکن دوستانہ تحفہ دینے والا زیادہ لینے کی نیت سے نہ دیا کرے نہ دینے والا بد نیتی سے دے ورنہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے وہ ہر ایک کام کا بدلہ اس کی نیت کے مطابق دے گا ان صفات کا اس میں ہونا ضروری ہے اس لئے کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا اللہ نہیں تمام جہان کا مالک پرورش کنندہ وہی ہے اسی نے تمہیں دنیا میں پیدا کر کے آباد کر رکھا ہے انجام کار بلا شبہ قیامت کے روز تم کو جمع کرے گا جہاں تمہیں حساب دینا ہوگا اس واقعہ کو بالکل سچ جا نو اللہ سے زیادہ راست گو کون ہے جس کی بات پر یقین کرو گے اللہ ہی تو ابتدا سے تمہارے دشمنوں کے حال تم پر ظاہر کرتا رہا جن کو تم نے بالکل مطابق پایا پھر کیوں تم منافقوں کے بارے میں جو اعلی درجہ کے تمہارے دشمن ہیں دو گروہ ہو کر متفرق ہوگئے ہو بعض ان کو مسلمان جانتے ہیں اور بعض کافر حالانکہ وہ یقینی کافر ہیں اس لئے کہ اللہ نے ان کو بوجہ ان کی بداعمالی کے گمراہ کردیا اب وہ ہرگز راہ پر نہیں آسکیں گے کیونکہ جس کی نسبت جناب باری میں سزا کا فتوٰی لگ جائے اسے کوئی بچا نہیں سکتا پھر کیا تم اللہ کے گمراہ کئے ہوئے کو راہ پر لانا چاہتے ہو ہرگز تم اس خیال میں کامیاب نہ ہوگے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ جس کو بداعمالی کی سزا میں راہ نہ دے تو اسکے لئے کوئی صورت نہ پاوے گا کہ کسی طرح اس کو راہ راست پر لاوے تم ان کے ایمان کی نسبت جھگڑتے ہو اور وہ چاہتے ہیں کہ تم بھی ان کی طرح کافر ہو کر ایک سے ہوجاؤ پس جب ان کی یہ حالت ہے تو ان میں سے کسی ایک کو بھی دوست نہ بناؤ جب تک وہ گھر چھوڑ کرا للہ کی راہ میں لڑنے کو نہ نکلیں اور ثابت قدم نہ رہیں اور اگر باوجود دعوٰی اسلام کے اس سے منہ پھیریں اور دھوکہ دہی اور چال بازی سے باز نہ آویں تو ان کو پکڑو اور جہاں پاؤ قتل کرڈالو اور ان میں سے نہ تو کسی کو دوست بناؤ اور نہ حمائتی بس بالکل علیحدگی اختیار کرو ہاں ان کو نہ مارو جو تم سے معاہدہ کئے ہوئے ہیں بلکہ جو تمہارے معاہدہ والوں سے معاہدہ رکھیں یا تمہارے لڑنے اور اپنی قوم (کفار) کے ساتھ لڑنے سے باز آکر تمہارے پاس آجاویں اور تم سے صلح جوئی کریں ایسے نیوٹرل لوگوں سے لڑنا بزدلی ہے اپنی قوت بازو کے غرور میں ایسے لوگوں کو نہ مارو اور اللہ کا شکر بجالاؤ کہ تم کو ان پر فتح عنائت کی ورنہ اگر اللہ چاہتا تو انہیں کو تم پر غالب کردیتا پھر وہی تم کو مارتے پس اگر وہ تم سے کنارہ کش ہوں اور تم سے نہ لڑیں اور تمہاری طرف صلح کے پیغام بھیجیں تو ان کے درپے ہرگز نہ ہو اس لئے کہ ان سے لڑنے کی اللہ نے تم کو اجازت نہیں دی ہاں انہی کے قسم لے اور لوگ ایسے بھی تم کو ملیں گے جو بظاہر چاہیں گے کہ تم سے امن میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی لیکن عملی کارروائی ان کی یہ ہوگی کہ جب کوئی ان کو جھگڑے فساد کی طرف بلائے گا تو بھاگ کر اس کی طرف ایسی سرعت سے جائیں گے گویا اس میں گر پڑیں گے پس اگر وہ تم سے کنارہ کش نہ ہوں اور تمہاری طرف صلح کے پیغام نہ بھیجیں اور اپنے ہاتھوں کو تمہاری لڑائی سے نہ روکیں تو ان کو پکڑو اور جہاں پاؤ ان کو قتل کر ڈالو انہیں لوگوں پر تم کو غلبہ دینا اللہ عالم الغیب نے مقدر کر رکھا ہے ہاں مسلمانوں کے قتل سے پرہیز کرو۔