أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا
کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو گمان کرتے ہیں کہ وہ اس پر ایمان لے آئے ہیں جو تیری طرف نازل کیا گیا اور جو تجھ سے پہلے نازل کیا گیا۔ چاہتے یہ ہیں کہ آپس کے فیصلے غیر اللہ کی طرف لے جائیں، حالانکہ انھیں حکم دیا گیا ہے کہ اس کا انکار کریں۔ اور شیطان چاہتا ہے کہ انھیں گمراہ کر دے، بہت دور گمراہ کرنا۔
(76۔67) کیا تو نے (اے نبی) اور تم نے اے مسلمانو ! ان لوگوں کو نہیں دیکھا کہ جو دعوی کرتے ہیں کہ جو کچھ تجھ پر اور تجھ سے پہلے اللہ کا کلام اترا ہے ہم سب کو مانتے ہیں اور حالت عملیہ ان کی بالکل اس کے مخالف ہے جب کبھی کوئی معاملہ آپڑے تو موافق شریعت اللہ تعالیٰ ان کا حرج ہوتا ہو تو اس صورت میں چاہتے ہیں کہ شریروں اور شریعت کے مخالفوں سے فیصلہ کرائیں حالانکہ پہلے ہی سے ان کو اس کے انکار کرنے کا حکم ہوچکا ہے مگر وہ باز نہیں آتے اور شیطان بھی اپنے گھات میں ہے چاہتا ہے کہ کسی طرح ان کو بہکا کر ہدائت سے دور ڈال دے اور یہ اپنا نفع ونقصان نہیں جانتے (شان نزول :۔ (الم ترا الی الذین یزعمون) ایک یہودی اور مسلمان منافق میں کچھ تنازع تھا یہودی نے کہا اس کا فیصلہ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے چلتے ہیں منافق بوجہ اس کے کہ دل میں جانتا تھا کہ میں غلطی پر ہوں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو کبھی غلطی کی حمایت نہ کریں گے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضری سے انکار کیا اور ایک یہودی کا نام لیا کہ اس کے پاس چلیں جو کچھ وہ فیصلہ دے گا منظور کروں گا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہاں کچھ دے کر کام بن جائے گا آخر وہ یہودی بھی مجبور ہوگیا اور دونوں ایک کاہن کے پاس فیصلہ کرانے کو گئے اس پر یہ آیت نازل ہوء اور منافق بظاہر مومن کی قلعی کھل گئی۔ معالم۔) اور جب کوئی ان سے کہے کہ اللہ کے اتارے ہوئے حکم اور اس کے۔ رسول کی طرف آئو جو کچھ فرماویں اس کے موافق اس سے فیصلہ کرائو جب ان کو کسی طرح کا حرج معلوم ہو تو تو ان منافقوں کو دیکھتا ہے کہ تیرے سامنے آنے سے رکتے ہیں بھلا پھر کیا ہوگا جب ان کی ایسی بد عملی کے سبب سے ان پر کوئی مصیبت پہنچے گی تو تیرے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آئیں گے کہ واللہ باللہ ہم نے تو صرف بھلائی اور ملاپ چاہا تھا معاذاللہ خدانخواستہ ہم کوئی آپ کے فرمان سے منحرف ہیں ؟ آپ ہم سے کسی نوع کا رنج نہ رکھیں ہمارے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ہماری تکلیف دور کر دے غرض ایسی ویسی ادھر ادھر کی بہت سی باتیں بنائیں گے ان کے دلوں کی بات اللہ کو معلوم ہے پس تو ان کے برا بھلا کہنے سے منہ پھیر لیا کر اور نصیحت کیا کر نہ سختی سے بلکہ نہائت نرم بات اثر کرنے والی ان کو کہہ یہ کتنے ہی تیرے مخالف کوشش کریں تیری ترقی کو کسی طرح مسدود نہ کرسکیں گے اس لئے کہ تیری ترقی کے ہم خود حامی اور ذمہ دار ہیں کیوں نہ ہو یہ تو عام قاعدہ ہے کہ رسول ہم اس لئے بھیجتے ہیں کہ ہمارے حکم سے لوگ اس کی تابعداری کریں سو تیرے سے بھی یہی معاملہ ہوگا ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں تک تیرے ماننے والوں کی نوبت پہنچے گی اور اگر یہ لوگ بھی اس وقت جب انہوں نے بوجہ انکار کے اپنا برا کیا تھا تیرے پاس آکر اللہ سے بخشش مانگتے اور رسول بھی ان کی منت اور اخلاص کو دیکھ کر ان کے لئے اللہ سے بخشش مانگتا تو اللہ کو ضرور اپنے حق میں معافی دینے والا مہر بان پاتے پس تیرے رب یعنی ہم کو اپنی ذات برکات کی قسم ہرگز یہ لوگ ایمان دار نہیں ہونگے جب تک یہ آپس کے جھگڑوں میں تجھ ہی کو منصف نہ بنا دیں گے پھر اپنے دلوں میں تیرے فیصلے سے نا راض نہ ہو نگے۔ بلکہ اس کو بخوشی قبول کرلیں گے یہ تو ان کا حال سیدھے سیدھے احکام کے متعلق ہے اگر ہم ان پر فرض کردیتے کہ اپنی جانوں کو اللہ کی راہ میں قتل کر دو یا اپنے گھروں سے نکل جائو تو شاید بہت کم ہی لوگ ان میں سے کرتے اکثر بالکل علانیہ منکر ہو بیٹھتے اور جو کچھ ان کو نصیحت کی جاتی ہے اگر اس پر عمل کرتے تو ان کے لئے ہر طرح سے بہتر اور ثابت قدمی کا موجب ہوتا اور اس وقت ہم ان کو اپنے ہاں سے بڑا ثواب دیتے اور ان کو راہ راست کی منزل پر پہنچا دیتے جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کفرے مانبرداری کرتے ہیں وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کئے یعنی اللہ کے نبی اور صدیق اور شہید اور نیکو کار اور یہ لوگ بہت ہی اچھے رفیق ہیں ان کی صحبت میں رہنے والا بھی وہی انعام پاوے گا جو ان کو ملے گا (شان نزول :۔ (من یطع اللہ والرسول) ایک شخص ثوبان نامی آنحضرت صلعم سے نہایت محبت رکھتا تھا ایک دفعہ نہایت بے قراری میں بھاگا آیا آپ نے پوچھا ثوبان کیا حال ہے اچھے ہو کہا کہ حضرت اچھا ہوں کوئی بیماری نہیں فقط میں نے آج آپ کی زیارت نہ کی تھی اس لئے گھبراہٹ ہوئی اور مجھے قیامت یاد آئی تو اور بھی زائد رنج ہوا اس لئے کہ جنت میں آپ بلند مرتبہ انبیاء کے ساتھ ہوں گے وہاں ہماری رسائی کیسے ہوگی کہ ہم دیدار پر انوار سے مشرف ہوں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم راقم کہتا ہے کہ آپ کی محبت کی علامت یہ ہے ہر معاملہ میں آپ کی سنت ملحوظ رکھ کر اس پر عمل کرے ورنہ دعویٰ محبت غلط۔ (منہ) یہ مہر بانی خاص اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگی نہ کسی مخلوق کی طرف سے جو ان پر کسی قسم کا احسان جتلاوے اور اللہ ہی جاننے والا کافی ہے موافق اپنے علم کے ان کو دے گا ان کو سوال کرنے کی بھی نوبت نہ پہنچے گی چونکہ غیب دانی خاصہ اللہ تعالیٰ ہے جو تم میں نہیں پایا جاتا اس لئے بسا اوقات بے خبری میں تم تکلفی اٹھائو گے لہذامسلمانو ! اپنے دشمنوں سے بچائو کے لئے اپنے ہتھیار لے لیا کرو پھر چاہے متفرق ہو کر نکلو یا جمع ہو کر جس طرح اپنے لئے مناسب سمجھو عمل کرو مگر بوقت ضرورت ضروری نکلو ہم جانتے ہیں کہ کوئی تم میں سے بوجہ ضعف ایمان یا نفاق قلبی کے سستی کرتا ہے اور جنگ میں نہیں نکلتا پھر اگر اتفاقاً تم کو کسی طرح کی تکلیف پہنچے تو وہ بطور شکریہ کہتا ہے کہ اللہ نے مجھ پر بڑا ہی احسان کیا جو میں ان مسلمانوں کے ساتھ حاضر نہ تھا ورنہ میں بھی مبتلا۔ آفات ہوتا اور اگر تم پر خدا کی طرف سے مہربانی ہوجائے تم لوگ فتحیاب ہوجائو اور مال غنیمت تم کو ہاتھ آئے تو ہاتھ ملتا ہوا کہتا ہے ہائے افسوس میں بھی ان کے ساتھ جنگ میں ہوتا تو آج ان کی طرح بڑی مالی مراد پاتا پھر تمہارے اس مال ودولت پر ایسا حسد کرتا ہے گویا تم میں اور اس میں کبھی دوستی کی نسبت ہی نہ تھی ورنہ یہ تو سمجھتا کہ گو مجھ کو فائدہ نہیں پہنچا لیکن جب میرے دوستوں کو پہنچا ہے تو فی الجملہ مجھے بھی خوش ہونا چاہئے مگر یہ ایسا نہیں کرتا کیونکہ اس نے دنیا کو دین پر مقدم سمجھ رکھا ہے خالص مومنوں کی یہ عادت نہیں بلکہ وہ تو دین کو دنیا پر ترجیح دیتے ہیں بلکہ دنیا کو دین کے عوض حسب موقع فروخت کردیتے ہیں پس جو لوگ دنیا کے فوائد کو آخرت کے بدلے میں ہیچ سمجھ کر گویا بیچ دیتے ہیں اور دنیا کو چھوڑ کر دین لیتے ہیں اللہ کی راہ میں آخرت حاصل کرنے کو دین کے دشمنوں سے جب وہ ان کو تنگ کریں تو خوب جنگ کریں یہ نہ سمجھیں کہ مقتول ہونے ہی پر یہ بدلہ ان کو ملے گا بلکہ جو کوئی اللہ کی راہ میں لڑائی کرے پھر چاہے وہ مارا جائے یا دشمن پر غالب آجائے دونوں حالتوں میں ہم اس کو بہت بڑا بدلہ دیں گے اس قدر جہاد کی فضیلت سن کر بھی تم کو کیا ہوا کہ مستعد ہو کر اللہ کی راہ میں اور ان بے چارے ضعیف مردوں اور عورتوں اور بچوں کو بچانے کے لئے نہیں لڑتے ہو جو کفار کی تکلیف سے تنگ آکر کہتے ہیں اے ہمارے مولا ! ہم کو ظالموں کی اس بستی سے جس میں ہم رہتے ہیں کسی طرح سے نکال اور ہمارے لئے اپنے ہاں سے کوئی حمائتی مقرر کر اور کوئی مددگار بنا۔ سنو ! جو لوگ مومن ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ شیطان کی راہ میں جنگ کرتے ہیں سو تم شیطان کے دوستوں کو مارو وہ تم پر کسی طرح غالب نہیں آسکیں گے۔ اس لئے کہ ان کے حمائتی شیطان کی تدبیر نہایت سست ہے بایں ہمہ بعض ظاہری مسلمانوں کے حوصلے بہ نسبت سابق کے بھی پست ہوگئے ہیں۔