فَمَالِ الَّذِينَ كَفَرُوا قِبَلَكَ مُهْطِعِينَ
پھر ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا، کیا ہے کہ تیری طرف دوڑتے چلے آنے والے ہیں۔
(36۔44) اتنی صاف صاف تعلیم سن کر پھر بھی تیرے مخالف تجھ سے بدکتے ہیں کیا وجہ ہے کہ منکرین ٹولی ٹولی ہو کر تیری طرف سے دائیں بائیں بھاگ جاتے ہیں یوں بھاگتے ہیں گویا جنگلی گدھے ہیں۔ (عام طور پر اس آیت کا ترجمہ اور تفسیر یوں کی گئی ہے ” ٹولیاں تیری طرف چلی آتی ہیں“ عربی تفسیر میں میں نے یہی تفسیر اختیار کی ہے لیکن یہاں میں نے یہ تفسیر ترک کر کے یہ ترجمہ کیا ہے ” تیری طرف سے بھاگتے ہیں“ اس ترجمہ کی شہادت سورۃ مدثر کی آیت ہے جس کے الفاظ ہیں فمالھم عن التذکرۃ معرضین کانھم حمر مستنفرۃ فرت من قسورۃ اصل بناء اختلاف یہ ہے کہ قبلک پر حرف جارہ محذوف ہے۔) کیا باوجود ان حالات کے ان میں سے ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ نعمتوں کے باغوں میں داخل کیا جائے یعنی خواہش تو ان کی یہی ہے کہ ہم زندگی آرام چین سے نعماء اور آسائش میں گذاریں اور اعمال ایسے ہیں کہ ان پر یہ کہنا زیبا ہے۔ جی عبادت سے چرانا اور جنت کی ہوس ام چور اس کام پر کس منہ سے اجرت کی ہوس ان کا مقصور ہرگز پورا نہیں ہوگا ان کا خیال اور تکبر اس حد تک ترقی کر گیا ہے کہ یہ ہماری قدرت کاملہ سے بھی منکر ہو رہے ہیں حالانکہ ہم نے ان کو ایسی چیز ( منی کے نطفے) سے پیدا کیا ہے جسے یہ جانتے ہیں پھر اتنی بدمزاجی کیوں ؟ ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے پروردگار یعنی اپنی ذات کی قسم ہے کہ یہ تو کیا ہم قادر ہیں کہ ان سے اچھی مخلوق پیدا کردیں اور ایسا کرنے میں ہم عاجز نہیں ہیں پس تو اے نبی ان کو ان کے اس حال پر چھوڑ دے بے ہودہ باتیں بنائیں اور کھیل کود میں مشغول رہیں یہاں تک کہ بعد الموت ان پر وہ وقت آجائے جس کا ان کو وعدہ دیا جاتا ہے اس روز اپنے کئے کی جزا سزا پوری پوری پائیں گے یعنی جس روز یہ لوگ زندہ ہو کر قبروں سے جلدی جلدی نکلیں گے ایسے جلدی کہ گویا وہ نشانہ چاند ماری کی طرف بھاگے جاتے ہوں گے ان کی آنکھیں ندامت کے مارے جھکی ہوں گی ذلت ان کے چہروں پر چھائی ہوگی کہا جائے گا کہ یہی انصاف کا دن ہے جس کا کل انسانوں کو وعدہ دیا جاتا تھا جو آج پورا ہوگیا دیکھو ہر انسان اپنے اعمال کے موافق بدلہ پا رہا ہے۔