سورة النسآء - آیت 44

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يَشْتَرُونَ الضَّلَالَةَ وَيُرِيدُونَ أَن تَضِلُّوا السَّبِيلَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا، وہ گمراہی کو خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم راستے سے بھٹک جاؤ۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(44۔50)۔ اس خاکساری کے بھید کو جو لوگ نہ سمجھیں اور جھٹ سے اعتراض کریں تو تو (اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی طرف کان بھی نہ لگا کیا تو ان کتاب والوں (یہودونصاریٰ) کو آنکھوں سے نہیں دیکھ چکا کہ کس طرح کی بے ایمانیاں کرتے ہیں (الم تر الی الذین) یہود کی شرارت یہاں تک پہنچی تھی کہ مارے رنج اور حسد کے حضرت ( علیہ السلام) کی خدمت میں آتے تو جہلا کی طرح زبان مروڑ مروڑ کر گالیاں دیتے گو ان گالیوں کو مسلمان نہ سمجھتے لیکن وہ اپنے جی میں خوشی مناتے ان کی اس مخفی خباثت پر اطلاع دینے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم بتفصیل منہ۔) گویا گمراہی کو دام دے کر خریدتے ہیں اور پھر اسی پر ہی بس نہیں بلکہ ساتھ اس کے دل سے چاہتے ہیں کہ کسی طرح سے تم بھی سیدھی راہ سے بہک جاؤ مگر تم ان سے مطمئن رہو اللہ تمہارے دشمنوں کو یہ ہوں یا اور ان کے بھائی بند خوب جانتا ہے اللہ ہی تمہاری کارسازی اور حمایت کو کافی ہے اس کے ہوتے کسی کی حاجت نہیں ان کتاب والوں کی کہاں تک تم کو سنائیں ایسے ایسے کام کرتے ہیں جن سے یوں سمجھا جائے کہ گویا اللہ سے بھی منکر ہیں بعض یہودی تو اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ اللہ کے کلام کو بھی حسب موقع بدل ڈالتے ہیں اور تیرے سامنے آکر کہتے ہیں کہ ہم نے آپ کا ارشاد سن لیا اور جی میں کہتے ہیں نہیں مانا اور چلتے ہوئے بددعادے جاتے ہیں کہ اے نبی ہماری سن اللہ کرے تیری کوئی نہ سنے اور زبان مروڈ کر دین میں طعنے کرنے کو تجھے مخاطب کرکے راعنا کہہ جاتے ہیں (راعنا کے دو معنے ہیں (ہم کو دیکھنے) اور (ہمارے چرواہے) یہودی دوسرے معنے مراد لیتے اور مسلمان اول سمجھتے۔ ١٢) جس سے جانتے ہیں کہ ہم نے بہت اچھا کام کیا ہے حالانکہ ان کے حق میں یہ کار وائی سراسر مضر ہے ہاں اگر تیری حضور میں آکر یوں کہتے کہ صاحب جو کچھ آپ نے فرمایا ہم نے خوب سنا اور اس کے تابع بھی ہوئے ہماری فددیانہ بات سنئے اور ہماری طرف نظر شفقت کیجئے تو یہ طریقہ کلام ان کے لئے اچھا اور درست ہوتا کہ انجام کار ان کو ذلت نہ پہنچتی جو اس پہلی گفتگو سے پہنچنے والی ہے لیکن اللہ نے ان کی بے ایمانی اور سخت دلی کی وجہ ان کو اپنی رحت سے دور کردیا سواب سوائے کسی قدر ظاہری ایمانداری کے اللہ تعالیٰ کی باتوں کو دل سے نہیں مانیں گے اب ہم تم سب کو مخاطب کرکے ایک بھلی بات بتلاتے ہیں جس کا جی چاہے مانے جس کا جی نہ چاہے انکار کرے سنو ! اے کتاب والو (یہودیو اور عیسائیو) ہمارے اتارے ہوئے کلام کو مانو جس کے انکار کی تمہارے پاس کوئی وجہ نہیں نہ تو وہ بذات خود غلط ہے اور نہ تمہارے عقائد سابقہ کے خلاف ہے بلکہ تمہاری پاس والی کتاب کی تصدیق کرتا ہے کہ بے شک تورات انجیل کی اصل تعلیم اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی ہے یہی وجہ کسی کلام کے انکار کی ہوتی ہیں کہ یا تو وہ بذات خود صحیح اور مدلل نہیں ہوتا اور اگر مدلل ہو تو بسا اوقات انسان کے مسلمات سابقہ کا مخالف ہوتا ہے اس لئے وہ اس کو تسلیم کرنے سے اعراض کرتا ہے۔ سو ان دونوں وجہوں میں سے کوئی وجہ بھی نہیں پائی جاتی پس تمہیں مناسب بلکہ واجب ہے کہ اس کو مان لو پہلے اس سے کہ کتنے کافروں کے مونہوں کو ہم بگاڑ کر ان کی پیٹھ کی شک پر الٹ دیں یا ان پر لعنت کریں جیسے کہ ہفتہ میں زیادتی کرنے والوں پر کی تھی اور یہ دن ضرور ہونے والاہے اس لئے کہ اللہ کا حکم ہو کر ہی رہتا ہے کوئی اس کو مانع نہیں ہوسکتا اس دن کے فیصلہ کا خلاصہ بھی سن لو کہ اللہ شرک ہرگز نہ بخشے گا ہاں اس کے سوا جس کو چاہے گا بخش دے گا اس لئے کہ جو کوئی اللہ سے شرک کرتا ہے وہ بڑا ہی طوفان باندھتا ہے اس روز سب کو اپنے اپنے اعمال کا جوابدہ ہونا ہوگا نہ بیٹے کو باپ کا فخر ہوگا نہ باپ کو بیٹے کا باوجود ایسے اعلان صریح کے بعض لوگ اس بات کی وجہ سے دلیری کرتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا اللہ کے بڑے مقبول تھے کیا تو نے ان احمقوں کو نہیں دیکھا جو باپ دادا کے فخر پر اپنے آپ کو گناہوں سے پاک سمجھتے ہیں کیسی غلطی پر ہیں کیا وہ اپنے آپ کو پاک کہنے سے پاک ہوجائیں گے ہرگز نہیں ہاں اللہ جس کو چاہے گناہ معاف کرکے پاک کرتا ہے اس غلط خیالی کا مزہ بھی اس روز جانیں گے جس روز سب لوگوں کا حساب لیا جائے گا اور ان پر ایک دھاگے برابر بھی ظلم نہ ہوگا غور تو کر اللہ پر کیسا بہتان باندھتے ہیں ییس صریح گناہ ان کو جہنم میں لے جانے کیلئے کافی ہے تو ان کے اس افترا پردازی پر بھی تعجب کرتا ہوگا یہی ایک تعجب کی بات ان میں نہیں بلکہ یہ تو تعجبات کے پتلے ہیں