وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
اور خاوند والی عورتیں (بھی حرام کی گئی ہیں) مگر وہ (لونڈیاں) جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہوں، یہ تم پر اللہ کا لکھا ہوا ہے اور تمھارے لیے حلال کی گئی ہیں جو ان کے سوا ہیں کہ اپنے مالوں کے بدلے طلب کرو، اس حال میں کہ نکاح میں لانے والے ہو، نہ کہ بدکاری کرنے والے۔ پھر وہ جن سے تم ان عورتوں میں سے فائدہ اٹھاؤ، پس انھیں ان کے مہر دو، جو مقرر شدہ ہوں اور تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مقرر کرلینے کے بعد آپس میں راضی ہوجاؤ، بے شک اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
(24۔35)۔ اور جو کوئی تم میں سے آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کی بہ سبب زائد خرچ ہونے کے مقدور نہ رکھتا ہو وہ تمہاری مملوکہ مسلمان لونڈیوں ہی سے (نکاح کرلے) ان لونڈیوں کے ایمان کی زیادہ کھوج کرنے کی حاجت نہیں ظاہر پر اکتفا کرو۔ ان لونڈیوں کے ایمان کی زیادہ کھوج کرنے کی حاجت نہیں ظاہر پر اکتفا کرو کیونکہ اللہ تمہارے ایمان کو خوب جانتا ہے باوجود ضرورت نکاح کے لونڈیوں کے نکاح سے عارنہ کرو اس لئے کہ اصل میں تو تم ایک ہی ہو تم بنی آدم ایک دوسرے کی اولاد ہو پس اگر تم کو ضرورت ہو تو ان کے مالکوں کی اجازت سے ان کے ساتھ نکاح کرلیا کرو بشرطیکہ وہ بھلی مانس بن کر رہنے والیاں ہوں نہ مستی نکالنے والیاں ہوں نہ چھپے چھپے دوست رکھنے والیاں کہ خاوند صرف پردہ پوشی کی غرض سے کریں اور درپردہ تعلق کسی اور سے رکھیں اور بوقت نکاح یا بعد جس وقت تم کو مسرن ہو حسب دستور اور نیک طریق سے ان کے مہر ان کو دے دیا کرو پھر اگر نکاح میں آکر بھی بے حیائی (زنا) کریں تو آزاد عورتوں کی نسبت نصف سزا ان کو ہوگی یعنی پچاس درے یہ لونڈیوں سے نکاح کی تجویز اس کے لئے جو تم میں سے بدکاری کا اندیشہ کرے اور زنا میں مبتلا ہونے کا اسے خوف ہو اور باوجود اس کے صبر کرنا تمہارے لئے اچھا ہے بشرطیکہ گناہ میں نہ پھنسو اس لئے کہ لونڈیوں سے جو اولاد ہوگی عرفی طور پر ماں کی وجہ سے ان پر عار ہوگی اس تجردکی حالت میں تمہیں کسی نوع کی بدکاری کا دل میں خیال گذرے اور تم صبر پر ثابت قدم رہو تو اللہ ایسے خیالوں کو معاف کرے گا اس لئے اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے تمہارے حق یہاں تک مہربانی ہے کہ اللہ کو منظور ہے کہ تمہارے لئے اپنے احکام بیان کرے اور تم کو پہلے دیندار لوگوں کی راہ دکھاوے اور تم پر مہربانی کرے اس لئے کہ اللہ جاننے والا ہے کہ تمہارا اخلاص اپنی حد کو پہنچ چکا ہے اور باوجود علم کے بڑی حکمت والا ہے اس رتبہ اخلاص پر اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے بندوں سے ایسے معاملے کرتا ہے مگر اس مرتبہ والوں کے عموماً جہلا بد باطن بدخوا اور دشمن ہوا کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تم پر مہربانی کرنا چاہتا ہے اور جو لوگ اپنی خواہش کے غلام ہیں۔ ہر طرح سے وہ یہی چاہتے ہیں کہ تم کسی سخت غلطی میں پڑو جس سے تم پر عذاب خداوندی نازل ہو اور تم موردعذاب بنو مگر اللہ کو ہر طرح سے منظور ہے کہ تمہاری فلاح دارین ہو۔ اسی لئے تو اللہ تعالیٰ تمہاری تکلیف میں تخفیف چاہتا ہے کیونکہ انسان کی خلقت عموماً ضعیف ہے چونکہ اللہ تعالیٰ کو ہر طرح سے تمہاری ہدائت منظورہے۔ لہٰذا ایک امر ضروری سے جو عموماً بہت سی خرابیوں کا سرچشمہ ہے تم کو مطلع کرتا ہے کہ اے مسلمانو ! ایک دوسرے کا مال آپس میں برے طریق دغا، فریب، چوری، رشوت، ظلم وستم سے نہ کھایا کرو (شان نزول :۔ (لاتاکلوا اموالکم) اہل عرب میں جواء شراب خوری ایک بڑا فخر سمجھا جاتا تھا جیسا کہ ان کے اشعار سے معلوم ہوتا ہے۔ لوٹ مار تو ان کا رات دن کا شیوہ ہی تھا۔ ایسے افعال شنیعہ سے روکنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔) ہاں ایک طریق ہے کہ اس سے غیر کے مال کو کھاسکتے ہو وہ یہ کہ اپنی مرضی سے سوداگری کرو جس میں دونے تگنے چوگنے بھی کرلو تو مضائقہ نہیں اور اپنے بھائیوں کو قتل مت کیا کرو۔ یہ احکام تمہارے ہی فائدہ کو اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے اس لئے اللہ تم پر مہربان ہے ہاں جو کوئی باوجود سننے احکام اللہ تعالیٰ کے باز نہ آئے گا بلکہ یہ کام قتل وقتال سرکشی اور ظلم سے کرتارہے گا ہم بھی اس کو جہنم کی آگ میں ڈالیں گے گو وہ کتنا ہی رئیس کیوں نہ ہو ضرور ہی اس کو سزا ملے گی کیونکہ یہ امر اللہ پر آسان ہے وہ بڑے سے بڑے کو بھی سزا دے سکتا ہے ہاں ہم اتنا تو بتقاضائے رحمت تو ضرور کردیں گے کہ اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جیسے شرک کفر زنا چوری غیبت شکائت وغیرہ جن سے تم کو روکا جاتا ہے باز رہو گے تو تمہاری غلطیوں کو ہم معاف کردیں گے اور تم کو بعد مرنے کے بڑی عزت کی جگہ (جنت) میں داخل کریں گے پس اگر یہ عزت حاصل کرنا چاہتے ہو تو سب سے پہلے اخلاقی برائیوں کی جڑ یعنی حسد کی جڑ کاٹ ڈالو۔ اس حسد کا ازالہ سرے سے یوں ہوسکتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے تم کو دیا ہوا ہے اسی پر قناعت کرو اور جن امور کے ساتھ اللہ نے بعض کو بعض پر بڑائی دے رکھی ہے ان کی تمنا نہ کیا کرو کیونکہ کسی کی چیز کی تمنا کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ چند روز تک نہ ملے گی تو حسد کرنے لگ جاؤ گے مثلاً کسی کا اچھا مکان دیکھ کر یہ تمنا کرنے لگو کہ ہمارا بھی ایسا مکان ہو چند روز تک یہ تمنا پوری نہ ہوئی تو دل میں خیال آیا کہ اللہ کرے اس کا بھی خراب ہوجائے تاکہ دونوں ایک سے ہوجائیں اس لئے کہا جاتا ہے کہ کسی کی چیز کی تمنا اور خواہش نہ کیا کرو (شان نزول :۔ (لاتتمنوا) مرد کے لئے عورت کی نسبت دگنا حصہ سنکر عورتوں نے خواہش ظاہر کی کہ ہمیں مردوں سے کمی کیوں دی گی۔ حالانکہ ہم زیادہ محتاج معاش ہیں اس آرزو سے روکنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم بتفصیل منہ۔) ہاں اللہ سے اپنے بھلے کی دعا کیا کرو اور یاد رکھو مردوں کو مردوں کے کئے سے اور عورتوں کو عورتوں کے کئے سے حصہ ہے کوئی کسی کا حق نہیں لے گا مرد نیک و بد جو کچھ کریں گے ان کو ملے گا عورتیں نیک وبد کچھ کریں گی ان کو ملے گا پس تم ان بیہودہ خیالات ” تمنی“ حسد وغیرہ سے باز آؤ۔ اور اللہ سے اس کا فضل و کرم مانگا کرو بے شک اللہ سب کچھ جانتا ہے پس تم اسی سے مانگو وہ تمہاری ہر ایک حاجت مناسب مصلحت پوری کرے گا دنیاوی ہیرو پھیر اور ترقی تنزل اور کمی زیادتی کے متعلق گھبرایا نہ کرو۔ اور چونکہ ہر ایک مال میں جو ماں باپ اور قریبی رشتہ دار بہن بھائی بیوی خاوند چھوڑمریں ہم (اللہ) نے حصہ دار مقرر کئے ہیں پس مارے حسد اور رنج کے ان کے حصے دبایا نہ کرو بلکہ ہر ایک کو پورا پورا دیا کرو اور جن لوگوں سے تم نے دوستی کے عہدو پیمان کئے ہیں ان کے ساتھ بھی ہمدردی کیا کرو اور ان کا حصہ مروت بھی جو بحق دوستی تم پر واجب ہو پورا دیا کرو اور جان رکھو کہ سب چیزیں اللہ کے سامنے ہیں یہ نہ سمجھو کہ جن کو میراث میں حصہ زائد ملا ہے وہ بلاوجہ بھی اللہ مقبولیت کا حق رکھتے ہیں جیسا کہ بعض مردوں نے اپنا دگنا حصہ سن کر یہ جانا کہ ہمیں نیک اعمال کا بھی بدلہ دگنا ہی ملے گاسو یہ خیال ان کا غلط ہے کیونکہ مرد عورتوں پر حاکم اور افضل اس لئے ہیں کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر بڑائی دے رکھی ہے۔ (شان نزول :۔ (الرجال قوامون) ایک صحابی سعد بن ربیع نامی نے اپنی بیوی کو جنگل میں ایک طمانچہ مارا اس کے باپ نے حضرت اقدس کی خدمت میں شکائت کی۔ آپ نے فرمایا کہ عورت اس سے بدلہ لے لے مگر چونکہ ایسا قاعدہ عام طور پر عورتوں کو ادب سے مانع تھا اس پر یہ آئت نازل ہوئی۔ معالم بتفصیل منہ۔) کہ مرد بہ نسبت عورتوں کے فہم فراست میں عموماً بڑھ کر ہوتے ہیں اور نیز اس وجہ سے کہ وہ اپنے مال بیویوں کے نان ونفقہ اور مہر میں خرچتے ہیں جیسا کہ ان کی حاجتیں بہ نسبت عورتوں کے زیادہ ہیں ویسا ہی ان کا حصہ بھی زائد کیا گیا ہے عورتوں کو چاہئے کہ اس اللہ تعالیٰ کی مصلحت کو سمجھیں اور بمقابلہ اس خرچ کے خاوندوں کی تابعداری کریں پس جو عورتیں نیک ہیں ان کی پہچان یہ ہے کہ وہ خاوندوں کی تابعدار ہیں اور بمقابلے اس کے جو اللہ نے ان کے حقوق محفوظ رکھے ہیں خاوندوں کے غیب کی یعنی اپنے آپ کی ان کے اسباب کی ان کے رازوں کی غیروں سے حفاظت کرنے والی ہیں ایسی عورتوں کی تم بھی قدر کیا کرو جن عورتوں کی تم شرارت معلوم کرو پہلے ان کو بآہستگی سمجھاؤ اور اگر اپنی کج ادائی سے وعظ ونصیحت سے متاثر نہ ہوں تو باشی سے ان کو علیحدہ کردو پھر بھی نہ سمجھیں اور باز نہ آئیں تو منہ بچا کر خفیف سا ان کو مارو پھر اس پر اگر وہ تمہاری فرمانبرداری کریں تو اس خیال سے کہ ہم حاکم ہیں ان پر بے جا الزام لگا نے کی فکر نہ کرو۔ تم سب جہان کے حاکم تو نہیں اللہ سب سے بلند اور بڑا حاکم ہے پس وہ باوجود بڑا ہونے کے رحم کرتا ہے تو تم صرف چند روز حکومت پر اتنا زور کیوں دکھاتے ہو اور اگر خاوند بیوی میں مخالفت پاؤ جو معملولی کوشش سے روبہ صلح نہ ہوسکتی ہو اور کہنے سننے سے نہ سمجھیں تو ایک منصف مرد کے کنبہ سے تجویز کرو اور ایک عورت کے کنبہ سے اگر وہ دونوں منصف مل کر صلح کرانی چاہیں گے اور نیک نیتی سے کوشش کریں گے تو اللہ بھی ان کو صلح کی توفیق دے گا بے شک اللہ ہر چیز کو جانتا ہے اور ہر ایک شے سے خبر رکھتا ہے چونکہ بسا اوقات عورتوں کے جھگڑے غفلت تک پہنچا دیتے ہیں لہٰذا مناسب ہے کہ ہمہ وجوہ اس طرف نہ جھک جاؤ بلکہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا عالم میں نقارہ بجاؤ۔