كَمَثَلِ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ قَرِيبًا ۖ ذَاقُوا وَبَالَ أَمْرِهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
ان لوگوں کے حال کی طرح جو ان سے پہلے قریب ہی تھے، انھوں نے اپنے کام کا وبال چکھا اور ان کے لیے دردناک سزا ہے۔
ان موجود مشرکین مخالفین کی حالت بالکل ان لوگوں کی سی ہے جو ان سے پہلے قریب ہی گذرے ہیں جنہوں نے اپنے کئے کا پھل دنیا ہی میں چکھا تھا اور ابھی آخرت میں ان کے لئے دکھ کی مار باقی ہے اس آیت کے حکیمانہ مضمون کو دیکھیں اور مسلمانوں کی اندرونی حالت نوعی اور صنفی پھر صنفی در صنفی کو دیکھیں تو بے ساختہ منہ سے نکلتا ہے کہ یہ آیت ہمارے ہی حق میں اتری ہے خواجہ حالی نے اس حالت اور کیفیت کا نقشہ یوں بنایا ہے۔ نہ سنی میں اور جعفری میں ہو ملت نہ نعمانی و شافعی میں ہو الفت وہابی سے صوفی کی کم ہو نہ نفرت مقلد کرے نامقلد پہ لعنت رہے اہل قبلہ میں جنگ ایسی باہم کہ دین اللہ پر ہنسے سارا عالم کسی عام غرض کے لئے ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے ابتدا میں اگر ہوتے ہیں تو انتہا میں بگڑ جاتے ہیں کچھ شک نہیں کہ یہ اطوار انہی لوگوں کے ہوتے ہیں جو قومی اغراض عامہ سے ناواقف ہوتے ہیں اس لئے ان کے حق میں یہ الہی فیصلہ بالکل حق اور بجا ہے ذلک بانھم قوم لا یعقلون منہ۔