وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اور (ان کے لیے) جنھوں نے ان سے پہلے اس گھر میں اور ایمان میں جگہ بنا لی ہے، وہ ان سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کی طرف آئیں اور وہ اپنے سینوں میں اس چیز کی کوئی خواہش نہیں پاتے جو ان (مہاجرین) کو دی جائے اور اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ انھیں سخت حاجت ہو اور جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں۔
اور ان لوگوں کو بھی دیکھو کیسے مخلص باکمال ہیں جنہوں نے ان مہاجرین کے پہنچنے سے پہلے مدینہ شریف میں دار الایمان ایمان کا گھر بنایا جو لوگ ان کی طرف ہجرت کر کے آتے ہیں وہ لوگ ان سے دلی محبت کرتے ہیں اور جو کچھ ان کو اللہ کی طرف سے مال واسباب ملا ہے بمقابلہ ضروریات مہاجرین کے اپنے دلوں میں اس مال واسباب کی حاجت نہیں پاتے بلکہ مہاجرین کو اپنا بھائی بند جانتے اور ان کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دیتے ہیں چاہے ان کو سخت حاجت ہو کیونکہ اہل ایمان کے حق میں ان کا اصول ہے۔ خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے اس لئے وہ ہر مومن کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر مقدم جانتے ہیں ایسا کرنے والے اپنے نفس پر قابو پا جاتے ہیں اس لئے وہ نفس کے بخل سے بچتے ہیں اور ہماری طرف سے عام اعلان ہے کہ جو لوگ اپنے نفس کے جبلی بخل عادات قبیحہ جو قویٰ بہیمیہ سے پیدا ہوتی ہیں ان سے بچ جائیں وہی نجات یاب ہوں گے یہ دو قسم کے لوگ ہیں ایک تو وہ ہیں جو شمع محمدی پر مثل پروانوں کے نثار ہیں۔ یعنی دربار رسالت میں حاضر رہنے والے مہاجرین اور انصار جن کا ذکر اوپر ہوا۔