وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ
قسم ہے ستارے کی جب وہ گرے !
(1۔18) لوگو ! ہم کو بڑے ستارے کی قسم ہے جب وہ غروب کی جانب جھکتا ہے یعنی جس وقت طلوع صبح قریب ! ہوتا ہے۔ تمہارا ہم نشین حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ اللہ کے راستے سے گمراہ ہوا نہ بہکا ہے۔ کیونکہ وہ اللہ کا رسول ہے اور وہ اپنی نفسانی خواہش سے نہیں بولتا کہ جو جی میں آیا کہہ دیا۔ بلکہ وہ یعنی اس کا کلام جو دینی رنگ اور مذہبی صورت میں ہوتا ہے وہ اللہ کی طرف سے وحی ہے جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے۔ پھر اس میں کجی یا بے راہی کی گنجائش کہاں خاص کر اس وجہ سے کہ اس نبی کو بڑے قوی‘ زبردست‘ سب سے بالاتر اللہ نے روحانی تعلیم دی ہے تو اس تعلیم سے وہ نبی کار مفوضہ پر تیار ہوگیا اور اس وقت وہ محمد نبی بلحاظ انسانی مدارج کے بلند تر چوٹی پر تھا۔ پھر وہ اللہ کی طرف لگا اور جھکا رہا۔ پھر روحانی قرب میں وہ اتنا بڑھا کہ کمان کے دو گوشوں کے برابر بلکہ اس سے بھی بہت قریب ہوگیا۔ پس جب وہ روحانی قرب میں اس حد تک پہنچا تو اس وقت اللہ نے اپنے اس بندے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف جو کچھ وحی کرنا تھا کردیا۔ یہ اس کی نبوۃ کا پہلا دن تھا اس وقت اس کا قلب اس حد تک صاف اور مصفا ہوچکا تھا کہ جو کچھ اس نے حالت کشف میں ملاحظہ کیا اس کے دل نے اس کو جھوٹ نہ سمجھا بلکہ سچا پایا کیونکہ دل بھی اس کا صاف شفاف تھا۔ کیا پھر بھی تم لوگ اس نبی سے جھگڑتے ہو اس واقعہ پر جو وہ اپنی کشفی آنکھ سے دیکھ رہا ہے۔ حالانکہ اس نے پہلی مرتبہ حالت کشفی میں جو دیکھا تھا شب معراج میں اس کو ایک دفعہ اور سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا جہاں پر تمام مراتب کمال انسانیۃ ختم ہوجاتے ہیں اس سدرہ کے پاس جنت الماویٰ ہے جس میں نیک لوگوں کا مقام ہے یہ اس وقت کا واقعہ ہے جس وقت اس سدرہ پر بطور جسمانی تمثل کے عجیب کیفیت چھا رہی تھی جس کی کیفیت بیان کرنے اور سننے میں نہیں آسکتی۔ اس سدرہ کو دیکھنے سے دیکھنے والے (رسول اللہ ﷺ) کی آنکھ اس وقت نہ بہکی نہ اچٹ گئی بلکہ صاف صاف واقعات اس کے سامنے نمودار رہے اس دیکھنے والے نبی نے اپنے رب کی بہت بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ مطلب اس سارے بیان سے یہ ہے کہ نبی کی مثال سوانکھے کی ہے اور تمہاری مثال اندھے کی۔ اندھا سوانکھے کی شہادت کو مسترد نہیں کرسکتا۔ پھر تم لوگ کیسے اس نبی کی بات کو رد کرسکتے ہو۔ (معراج کی کیفیت حضرت شاہ ولی اللہ قدس سترہ نے حجتہ اللہ۔ باب الاسراء میں خوب لکھی ہے۔ اسے ملاحظہ کریں۔ (منہ)