سورة الطور - آیت 29

فَذَكِّرْ فَمَا أَنتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَلَا مَجْنُونٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پس نصیحت کر، کیوں کہ تو اپنے رب کی مہربانی سے ہرگز نہ کسی طرح کاہن ہے اور نہ کوئی دیوانہ۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(29۔49) اے نبی ! تو نے یہ سن لیا کہ سب سے اچھا اعتقاد اور اچھا کام یہ ہے کہ اللہ کی طرف بلایا جائے پس تو لوگوں کو ان باتوں کی نصیحت کیا کر تو اللہ کے فضل سے نہ تو کاہن ہے کہ لوگوں پر دم جھاڑا کرے نہ مجنون ہے۔ یہ تو سب کچھ ان لوگوں کے خیالات کا عکس ہے (عرب کے لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حق میں مختلف راہیں رکھتے تھے بلحاظ تاثیر کلام آپکو کاہن کہتے۔ کاہن عرب میں جھاڑ پھونک کرنے والے تھے اور بلحاظ مخالفت کرنے عام رائے کے آپ کو مجنون کہتے ان دونوں خیالات کی تردید کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ) جو تجھے کبھی کچھ کہتے ہیں۔ کیا یہ لوگ تیری نسبت یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے ؟ اس کا کلام نظم نہیں مگر ناظموں کی طرح ہوائی قلعے بناتا اور خیالی پلائو پکاتا ہے ہم اس کے حال پر زمانہ کے انقلاب کا انتظار کرتے ہیں۔ چند روز تک اس کا شوروشر خود ہی ٹھنڈا پڑجائے گا ہمارے دخل دینے کی ضرورت نہ ہوگی ایسے ویسے کئی ہوئے اور چلے گئے اے نبی ! تو ان سے کہہ کہ تم جو میرا انتظار کر رہے ہو میں بھی تمہارے ساتھ تمہارے انجام کا منتظر ہوں یقینا تم لوگ خود دیکھ لو گے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے کیا ان کی عقلیں ان کو یہ راہنمائی کرتی ہیں کہ اللہ کو چھوڑ کر اس کے رسول سے منہ موڑ کر اور طرف چلو یا یہ واقع میں سرکش لوگ ہیں دیکھنے والا ان کی نسبت کیا خیال کرے انکو بے عقل سمجھے یا سرکش قرار دے اسی قسم کی ان کی اور کئی باتیں ہیں جو ناقابل ذکر ہیں کیا ان کو یہ زیبا ہے جو کہتے ہیں کہ اس محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قرآن کو از خود بنا لیا ہے ان کو ذرہ خیال نہیں آتا کہ یہ ایسا آدمی نہیں جو خود بنا لے بلکہ بات دراصل یہ ہے کہ یہ لوگ خود کسی سچی بات کو ماننے والے نہیں پس اگر یہ اس دعویٰ میں سچے ہیں کہ اس رسول نے خود بنا لیا ہے تو اس کے بنائے ہوئے کلام جیسا کوئی کلام لے آئیں تاکہ معلوم ہو کہ یہ بناوٹی ہے کیونکہ یہ کلام بلحاظ الفاظ مفردہ اور مرکبہ کے دوسرے کلاموں کے مشابہ ہے اور اس کا سنانے والا کوئی تعلیم یافتہ نہیں۔ کیا یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ یہ بغیر کسی چیز کے آپ سے آپ پیدا ہوگئے ہیں یعنی ان کا کوئی خالق نہیں یا یہ خود ہی اپنے خالق آپ ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ نہ خود خالق ہیں نہ بغیر خالق کے بنے ہیں بلکہ خالق کی مخلوق ہیں تو کیا انہوں نے آسمان اور زمین بنائے ہیں جس کی وجہ سے یہ کچھ عویٰ رکھتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے کچھ نہیں بنایا بلکہ یہ لوگ کسی سچی بات پر یقین نہیں کرتے۔ پہلا یہ جو اعتراضات کرتے کرتے یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ یہ بھی کہنے لگ جاتے ہیں کہ اس رسول کو رسالت کیوں ملی یہ اس کا حقدار کیسے بنا۔ اس کو رسالت الٰہی کیوں ملی؟ ملتی تو کسی بڑے امیر آدمی کو ملتی۔ کیا یہ لوگ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ تیرے پروردگار کے خزانے ان کے پاس ہیں؟ کہ ان سے دریافت کر کے دے یا یہ اس تقسیم رسالت پر مقرر کئے گئے حاکم ہیں کہ ان کی رائے لینی بھی ضروری تھی کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر آسمان سے باتیں سن پاتے ہیں؟ اچھا پھر ان میں کا سننے والا اپنی سنی ہوئی آواز کھلی دلیل کی شکل میں لے آئے ان کی کس کس بات کا ذکر کریں۔ ؎ جو بات کی اللہ کی قسم لاجواب کی ان سے پوچھو تو بھلا یہ بھی کوئی بات ہے جو تم کہتے ہو کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں کیا اللہ کے حصے میں لڑکیاں اور تمہارے حصے میں لڑکے ہیں ؟ یہ تقسیم تو ناقص ہے کہ زور دار صنف اولاد تمہارے حصے میں اور کمزور صنف اللہ کے لئے۔ مگر ان کو یہ کہتے ہوئے بات کی سمجھ نہیں آتی۔ بھلا یہ جو تیری اتنی سخت مخالفت کرتے ہیں کیا تو ان سے اپنے تبلیغی کام کی مزدوری مانگتا ہے کہ وہ اس کے قرض کے بوجھ سے دبے جاتے ہیں یا تیری مخالفت اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے پاس غیب کا علم ہے کہ اس کو لکھتے ہیں اور اس لکھے ہوئے میں تیری تصدیق نہ پا کر تیری مخالفت پر تلے بیٹھے ہیں کچھ نہیں تو کیا یہ تیرے برخلاف کوئی مکروفریب کرنا چاہتے ہیں ہرگز کامیاب نہ ہوں گے بلکہ بے ایمان لوگ خود الٰہی پکڑ میں آجائیں گے کیا ان کے لئے اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہے ؟ کوئی نہیں معاذ اللہ اللہ ان کے شرک سے پاک ہے ان میں سے کوئی بات بھی نہیں بلکہ صرف ضد اور عناد ہے اور کچھ نہیں۔ ان کی ضد کی حد ہوگئی ہے۔ اگر کوئی جما ہوا ٹکڑا یعنی از قسم پتھر وغیرہ آسمان سے گرا ہوا پالیں جو بندوں کی بدکاری پر بطور بم کے گولہ کے بحکم الٰہی سے اوپر سے گرتا دیکھیں تو یہی کہیں گے کہ یہ تو جما ہوا بادل ہے۔ اس میں عذاب وغیرہ کچھ نہیں حسب معمول پہاڑ سے جما ہوا پانی گر پڑا ہے دگر ہیچ۔ پس جب ان کی نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے تو اے نبی ! تو ان کو چھوڑ دے جو چاہیں کریں یہاں تک کہ یہ لوگ خود بخود اپنے جزا سزا کے دن کو جس کا وعدہ دئیے جاتے ہیں پائیں جس میں مارے صد مات رنج وغم کے یہ لوگ بے ہوش ہوجائیں گے یعنی جس روز نہ ان کی چالبازی کچھ کام آئے گی نہ ان کو مدد پہنچے گی یہ مت سمجھو کہ آخری عذاب ہی پر منحصر ہے نہیں بلکہ جو لوگ اللہ کے نزدیک ظالم ہیں ان کے لئے اس بڑے عذاب سے پہلے ایک عذاب ہے جو دنیا ہی میں ان کو آن پہنچے گا۔ مگر ان میں سے بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ پس تو اپنے کام میں لگا رہ اور اپنے پروردگار کے حکم کے مطابق صبر کئے جا کچھ شک نہیں کہ تو ہمارے سامنے ہے اور جب کبھی کسی مجلس میں بیٹھ کر اٹھا کرے تو اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ تسبیح پڑھا کر اور رات کو بھی تسبیح پڑھا کر اور ستاروں کے غروب ہوئے پیچھے یعنی بعد نماز صبح بھی تسبیحات یعنی سبحان اللہ وبحمدہ پڑھا کر۔ (حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مجلس سے اٹھتے تو آپ یہ دعا پڑھتے۔ سبحانک اللھم وبحمدک اشھد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک۔ فرمایا جو کوئی مجلس سے اٹھتے ہوئے یہ کلمات پڑھ لے اگر اس مجلس میں اس نے نیکی کی ہوگی تو اسپر مہر لگ کر محفوظ ہوجائے گی اور اگر برائی کی ہوگی تو اللہ کے ہاں سے اس گناہ کی بخشش ہوگی۔ غالبا حضور کا یہ عمل اس آیت کی تعمیل ہے۔ منہ) ! اس میں اشارہ ہے کہ عرب بلکہ دنیا ساری کا طلوع فجر قریب ہے۔ آفتاب رسالت محمد یہ علے صاحبھا الصلوۃ والتحیۃ کے ذریعہ سے (منہ)