سورة الطور - آیت 1

َالطُّورِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

قسم ہے طور کی!

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔28) اے ہمارے پیارے پیغمبر علیک السلام آئندہ کے وعدوں کی بابت جو کچھ ہم بتا دیں تجھے تو اس کے ماننے میں کسی طرح کا شک نہیں ہے البتہ تیرے مخالفوں کو ضرور انکار ہے۔ سو ہمیں قسم ہے کوہ طور کی اور الہامی کتاب قرآن مجید کی جو بڑے بڑے کاغذوں میں لکھی ہوئی ہے اور آباد گھر یعنی عبادت خانوں کی (جن میں ملائکہ اور انسان بکثرت آیا جایا کرتے ہیں۔ بلند اور اونچی چھت کی طرح آسمانوں کی اور جوش مارنے والے سمندر کی۔ ان قسموں کا جواب کیا ہے وہ سنو ! تمہارے پروردگار کا عذاب جو بدکاریوں پر موعود ہے ضرور واقع ہوگا۔ اس کو کوئی دفع کرنے والا نہیں وہ اس روز ہوگا جس روز آسمان فنا ہونے سے کچھ پہلے حکم الٰہی کے ماتحت اپنے محور پر بڑی تیز حرکت کرے گا اور پہاڑ بڑی سرعت سے پھریں گے۔ یعنی آسمان زمین اور پہاڑ سب کی حرکت موجودہ حرکت سے بہت تیز ہو کر دنیا کو فنا کر دے گی اس کے بعد نئے سرے سے دنیا بنے گی اس روز کا نام روز قیامت ہے پھر اس روز مکذبین یعنی اللہ اور رسولوں کے حکموں کی تکذیب اور انکار کرنے والوں کی بڑی خرابی ہوگی جو بے ہودہ بکواسوں میں کھیل تماشہ کرتے رہتے ہیں جس روز یہ لوگ بڑی ذلت اور خواری سے جہنم کی طرف دھکیلے جائیں گے جب اسے دیکھ کر چیں بجبیں ہوں گے تو ان کو کہا جائے گا یہی وہ جہنم کی آگ ہے جس کی تم لوگ تکذیب کیا کرتے تھے بھلا دیکھو تو سہی یہ جو تم کو اس وقت نظر آرہا ہے۔ یہ جادو ہے‘ جس کی وجہ سے تم معدوم چیز کو موجود سمجھتے ہو یا تم نہیں دیکھتے ذرہ آنکھ کھول کر دیکھو تو سہی تمہارے سامنے کیا ہو رہا ہے اچھا دیکھو یا نہ دیکھو چلو اس میں داخل ہوجائو پھر بعد داخلہ اس کی تکلیفوں پر صبر کرنا یا نہ کرنا تمہارے حق میں سب برابر ہے صبر کرنے سے عذاب میں کچھ تخفیف نہ ہوگی۔ نہ کرنے سے زیادتی نہ ہوگی بلکہ اس کے سوا کوئی بات نہ ہوگی۔ کہ تم لوگوں کو وہی بدلہ ملے گا جو تم دنیا میں کرتے رہے سنو ! تمہارے مقابل لوگ جن کو تم لوگ حقارت کی نظر سے دیکھا کرتے تھے یعنی پرہیزگار مسلمان جن کو تم لوگ ملیچھ اور ڈشٹ بلکہ شودر کہا کرتے تھے۔ کچھ شک نہیں کہ وہ پرہیزگار آج کامیاب ہیں دیکھو وہ آج باغوں اور نعمتوں میں ہیں جو کچھ ان کے پروردگار نے ان کو دیا ہے اس کے ساتھ مزے کر رہے ہیں۔ اور ان کو ان کے رب نے جہنم کے عذاب سے بچالیا ہے۔ اس کے مقابل تم لوگ اپنی حالت کو دیکھو کہ دوزخ میں پڑے سڑ رہے ہو۔ ایک طرف جہنم کا عذاب ہے۔ دوسری طرف زمہریر کی مصیبت ہے الامان والحفیظ۔ دیکھو تو یہ پرہیزگار مسلمان کس عیش وعشرت میں ہیں ان کو اجازت ہے کہ اپنے نیک کاموں کے بدلہ میں مزے سے کھائو پیئو۔ بچھے ہوئے تختوں پر آرام سے بیٹھ کر جیسے امیر لوگ گائو تکئے لگائے بیٹھتے ہیں اور دیکھو ہم نے ان کو صرف کھانا پینا ہی نہیں دیا بلکہ زندگی کا پورا لطف دیا ہوگا جس کی صورت یہ ہوگی کہ بڑی خوبصورت سفید رنگ کی موٹی آنکھ والی عورتوں سے ان کو جوڑا بنا دیا۔ تاکہ ان کو تجرد کی تکلیف نہ ہو اور وہ خوب مزے سے گذاریں کھائیں پئیں اور مزے کریں۔ غور کرو ان لوگوں کی کیسی پاک زندگی ہوگی اور سنو ! ہمارے (اللہ) کے ہاں یہ بھی ایک قانون ہے جو ایماندار پرہیزگار ہیں اور ان کی اولاد بھی ایمان کے کاموں میں ان کی تابع ہے یعنی ماں باپ کی طرح بیٹا بیٹی بھی عمل صالح کرتے ہیں تو ہم نے ان کی اولادوں کو ان صالحین ماں باپ کے ساتھ ملا دیا ہے یعنی جیسے ماں باپ اور اولاد اعمال صالحہ میں ملتے جلتے ہیں ان کو قریب قریب جگہ دی گئی ہے اور ان والدین اور اولادوں کے اعمال سے ہم نے کوئی کمی نہیں کی ہمارا ایک عام قانون ہے جس سے یہ لوگ اہل جنت مستثنیٰ ہوں گے وہ قانون یہ ہے کہ ہر ایک آدمی اپنے کئے ہوئے اعمال کی سزا میں پھنسا ہوا ہے۔ اس سے اسے فرصت نہ ہوگی۔ ہاں جنتی لوگ ہر طرح کی بندش سے آزاد ہیں۔ (اس استثناء کا ثبوت سورۃ مدثر کی آیت سے ملتا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کل نفس بما کسبت رھینۃ الا اصحاب الیمین (یعنی سوائے اہل جنت کے سب لوگ اپنے کئے میں گرو (پھنسے ہوئے) ہونگے۔ ١٤ منہ) دور ہر طرح کے پھل پھول اور ہر طرح کے گوشت سے جو بھی وہ چاہتے ہیں ہم نے ان کو خوب وافر دے رکھا ہے وہ اس بہشت میں ایک دوسرے کو شراب کے پیالے بھر بھر کر دے رہے ہیں کیسی شراب؟ ایسی کہ اس میں نہ نشہ اور نہ نشہ کے اثر سے کوئی لغو حرکت اور نہ کوئی گناہ کا کام ہے اس کے علاوہ ان پر ایک مہربانی یہ بھی ہے کہ وہ متوحشانہ زندگی نہیں گزارتے بلکہ خانگی صورت میں جو امور دل بستگی کا ذریعہ ہوتے ہیں ان کو یہاں بھی میسر ہیں۔ مثلاً ان کی بیویاں ہیں اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچے جو لڑکپن میں دنیا میں مر گئے یا ان کی حسب خواہش وہاں جنت ہی میں پیدا ہوئے ہیں۔ ان کے اردگرد ایسے پھر رہے ہیں گویا وہ چمکتے ہوئے موتی ہیں۔ لطف یہ کہ وہ بچے بچے ہی رہیں گے تاکہ ان کی دل بستگی اور تفریح کا سبب بنے رہیں وہ ان بچوں کو دیکھ دیکھ کر دل خوش کریں اور وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر باہمی سوال کریں گے یہاں اتنی بڑی نعمت ہم کو کون سے عمل کے بدلے میں ملی ہے ہمارے اعمال تو ایسے نہ تھے اس لئے وہ کہیں گے ہم تو اس سے پہلے اپنے اہل عیال میں ڈرتے رہتے تھے۔ کہ کہیں ہماری سستی یا کم عقلی کے باعث اللہ ہم پر خفا نہ ہوجائے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا خوف ہی ہم کو کام آگیا اس خوف کی برکت سے اللہ نے ہم پر احسان کیا اور محض اپنے فضل وکرم سے ہم کو عذاب دوزخ سے بچا لیا ورنہ ہمارا نہ تو کوئی وسیلہ تھا نہ ہمارا کوئی مددگار اس لئے ہم تو پہلے ہی سے اسی کو پکارتے اور اسی سے دعائیں مانگا کرتے تھے اور دل میں یقین تھا کہ بے شک وہی بڑا محسن اور اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے یہی ہمارا ایمان تھا اور یہی ہمارا کام۔ مختصر یہ کہ ہم اپنی دنیاوی زندگی میں سوائے اللہ کے کسی اور کو اپنا سہارا نہ جانتے تھے اور نہ اس کے سوا کسی سے حاجت طلب کرتے تھے اسی عقیدت پر ہم خود رہے اور دوسروں کو بھی بلایا۔ ساری زندگی میں ہماری یہی پکار رہی۔ لگائو تو لو اس سے اپنی لگائو جھکائو تو سر اس کے آگے جھکائو