مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
محمد اللہ کا رسول ہے اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، تو انھیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی، کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعے کافروں کو غصہ دلائے، اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ کے رسول ہیں اور جو ایماندار ان کے ساتھ ہیں وہ بھی اپنے قومی رنگے میں ایسے رنگ ہوئے ہیں کہ اغیار کفار کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ کیا مجال کوئی چیز ان میں رخنہ ڈال سکے جس سے وہ اس مقابلے میں کمزور ہوجائیں۔ اور آپس میں وہ ایک دوسرے پر بڑے مہربان ہیں کسی کا قصور ہو کسی نے کسی کی دل آزاری کی ہو۔ ذرہ سی نرمی کرنے پر فورا معاف کر کے یکدل ہوجاتے ہیں۔ غرض ان کی اس باری میں بالکل یکجہتی ہے یہی نہیں کہ متمدن لوگوں کی طرح قوم پرست ہیں بلکہ پورے اور پکے اللہ پرست ہیں۔ ان کی اللہ پرستی کا ثبوت زبانی نہیں بلکہ عمیی ہے کہ تم ان کو رکوع سجود کرتے یعنی نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔ وہ اس نماز میں اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں ان کی نیک بختی کی نشانی ان کی نمازوں کے اثر سے ان کے چہروں میں معلوم ہوتی ہے۔ یعنی وہ دیکھنے میں بھی بھلے آدمی معلوم ہوتے ہیں کیونکہ اسلام میں بھل منسائو یہ ہے کہ انسان اللہ کے ساتھ تعلق وابستہ رکھے۔ اور مخلوق کے ساتھ اچھا نباہ کرے۔ ایسا شخص اللہ اور مخلوق کے نزدیک پاک صاف آدمی ہوتا ہے۔ یہی اوصاف ان بھلے مسلمانوں کے تورات میں مرقوم ہیں اور انجیل میں ان کے اوصاف ایک کھیتی کی طرح مرقوم ہیں جس سے پہلے ایک سوئی کی طرح کی باریک انگوری نکلی پھر وہ سوئی مضبوط ہوئی۔ پھر موٹی ہوئی۔ پھر وہ اپنی پنڈلی نال پر سیدھی ایسی کھڑی ہوئی کہ کسانوں کو بہت بھلی لگتی اور خوش کرتی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی ابتدائی حالت ضعف اور آخری حالت ترقی کی امید افزا ہے اس کا انجام کار یہ ہوگا کہ اس آیت میں دو لفظ بہت قابل غور ہیں (١) اشداء علی الکفار۔ دوسرا رحماء بینھم۔ یہ دونوں آپس میں مقابل ہیں۔ بہت سے لوگ ان کے معنے بتاتے ہوئے حداعتدال سے نکل گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اشدا کے معنے ہیں سختی کرنے والے یعنی صحابہ کرام کفار پر خوب سختی کرتے تھے۔ یہانتک کہ ان سے جزیہ وصول کرتے ہوئے ان کی گردن پر پیر رکھ کردہول رسید کرتے اور آپس میں بڑے رحم دل ہوئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جونہی ذرہ سا اختلاف ہوا۔ ایسی تفسیر کرنے والوں نے آیت کی سند پر اپنے ہی کلمہ گھو بھائیوں کو کفار پر قیاس کر کے شدت کرنی شروع کی۔ سوال ہوا کہ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ تو جواب ملا اشداء علی الکفار۔ ہمارے نزدیک اس قسم کی تفسیرات تعمیلات نفسانی جذبات سے خالی نہیں۔ آیت کے معنے سمجھنے کے لئے ذرہ قوموں کا مقابلہ دیکھنا چاہئے خاص کر زمانہ جنگ میں ایک قوم (بشرطیکہ مہذب قوم ہو اس) کا اپنے افراد سے اور دشمنوں سے کیا اور کیسا برتائوہوتا ہے۔ گزشتہ جنگ عظیم میں انگریزوں کا آپس میں کیا برتائو تھا اور جرمنوں سے کیا؟ انسانیت میں ہم سب بنی آدمی شریک ہیں۔ فطرتی طور پر جو خصلت ایک میں ہے وہی دوسرے میں حالت جنگ میں کوئی نرم سے نرم انسان بھی ایسا نہیں ہوگا جو اپنے اور بیگانے میں فرق نہ کرتا ہو۔ وہ فرق یہی ہے کہ اپنے افراد سے نرم برتائو ہوتا ہے۔ بسا اوقات اپنی طبعی نرمی سے بعض اوقات مصلحت وقت سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔ لیکن مخالف کے ساتھ ایسا سلوک نہ کیا جاتا ہے۔ نہ طبیعت مانتی ہے۔ بس جو فرق طبعی طور پر ان دو حالتوں میں ہوتا ہے۔ وہی اس آیت میں مذکور ہے۔ یعنی مسلمانوں کی علامت بتائی گئی ہے کہ قومی برادران سے ان کا سلوک نرم ہوتا ہے اور قومی اعداء سے سخت۔ وہ ان کے دام میں انکے دھوکے میں نہیں آتے۔ بلکہ اپنے قومی مقاصد میں پخۃ رہتے ہیں۔ یہی معنے ہیں دوسری آیت کے ولیجد وا فیکم غلظۃ (تم ایسے بنو کہ دشمن بھی تم میں مضبوطی پائیں) یینے اپنے قومی مقصد میں پختہ رہو۔ اس سے ایک انچ بھی نہ ہٹو۔ اور باہمی معاملات میں نرمی اختیار کرو۔ لیکن زبان سے سخت گوئی اور بداخلاقی کا اظہار نہ ہوا کرے کیونکہ (قولو اللناس حسنا) عام حکم ہے اللہ اعلم۔ (منہ) (موجودہ تورات جو آج کل یہودیوں۔ عیسائیوں کے ہاتھ میں ہے اس کی پانچویں کتاب استثناء کے باب ٣٣ سے مسلمانوں کی اس صفت کا پتہ چلتا ہے جو یہاں ذکر ہوئی ہے۔ عبارت اس مقام کی یہ ہے۔ ” اللہ تعالیٰ سینا سے آیا‘ اور شعیر سے آون پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلویٔ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا۔ اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی۔ (فقرہ ١۔ ٢) یہ عبارت فتح مکہ اور دخول مکہ معظمہ کی طرف اشارہ ہے۔ جس روز حضور (علیہ السلام) فتح کر کے مکہ معظمہ میں داخل ہوئے ہیں آپ کے ساتھ دس ہزار صحابی تھے۔ جنکو تورات میں دس ہزار قدوسی یعنی پاک لوگ کہا گیا ہے۔ اسی تمثیل کی طرف اشارہ ہے۔ انجیل میں یہ تمثیل ان لفظوں میں ملتی ہے۔ ” اس (مسیح) نے ایک اور تمثیل ان (لوگوں) کے سامنے پیش کرکے کہا کہ آسمان کی بادشاہت اس رائی کے دانے کی مانند ہے جسے کسی آدمی نے لیکر اپنے کھیت میں بو دیا۔ وہ سب بیجوں سے چھوٹا تو ہے مگر جب بڑھجاتا ہے تو سب ترکاریوں سے بڑا ہوتا ہے اور ایسا درخت ہوجاتا ہے۔ کہ ہوا کے پرندے آ کر اس کی ڈالیوں پر بسیرا کرتے ہیں“ (انجیل متی باب ١٣ فقرہ ٣١۔ ٣٢) انجیل مرقس میں اس تمثیل کے الفاظ یہ ہیں۔ ’ وہ (مسیح) تمثیلوں میں بہت باتیں سکھانے لگا۔ اور اپنی تعلیم میں ان سے کہا سنو ! ایک بونے والا بیج بونے نکلا اور بوتے وقت ایسا ہوا کہ کچھ راہ کے کنارے سے گرا اور پرندوں نے آ کر اسے چگ لیا اور کچھ پتھریلی زمین پر گرا۔ جہاں اسے بہت مٹی نہ ملی اور گہری مٹی نہ ملنے کے سبب جلد اگ آیا۔ اور جب سورج نکلا تو جل گیا۔ اور جڑ نہ ہونے کے سبب سوکھ گیا۔ اور کچھ جھاڑیوں میں گرا۔ اور جھاڑیوں نے بڑھکر اسے دبا لیا۔ اور وہ پھل نہ لایا۔ اور کچھ اچھی زمین پر گرا اور وہ اگا اور بڑھ کر پھلا۔ اور کوئی تیس گنا کوئی ساٹھ گنا کوئی سو گنا پھل لایا۔ پھر اس نے کہا۔ جس کے کان ہوں وہ سن لے“ (انجیل مرقس باب ٤ فقرہ ٣۔ ٩) انجیل لوقا میں اس تمثیل کے الفاظ یوں ہیں۔ ” پس وہ (مسیح) کہنے لگا۔ اللہ کی بادشاہت کس کی مانند ہے میں اس کو کس سے تشبیہ دوں۔ وہ رائی کے دانے کی مانند ہے جسکو ایک آدمی نے لیکر اپنے باغ میں ڈال دیا۔ وہ اگ کر بڑا درخت ہوگیا۔ اور ہوا کے پرندوں نے اس کی ڈالیوں پر بسیرا کیا۔ اس نے پھر کہا میں اللہ کی بادشاہت کو کس سے تشبیہ دوں۔ وہ خمیر کی مانند ہے جسے ایک عورت نے لیکر تین پیمانے آٹے میں ملایا اور ہوتے ہوتے سب خمیر ہوگیا“ (لوقا۔ باب ١٣۔ فقرہ۔ ١٨۔ ٢١) مطبوعہ لودہانہ ١٩١٦ ء تشریح : انجیلی اور مسیحی محاورے میں الٰہی بادشاہت سے وہ زمانہ مراد ہے جس میں حسب مرضی الہیٰ لوگ کام کریں اور نجات آخری کے مستحق ہوں۔ چنانچہ حضرت مسیح کا قول اس اصطلاح کے موافق انجیل میں یوں ملتا ہے۔ ” اگر تمہاری راستبازی فقیہوں اور فریسیوں کی راست بازی سے زیادہ نہ ہوگی تو تم آسمان کی بادشاہت میں ہرگز داخل نہ ہوں گے“ (انجیل متی باب ٥۔ فقرہ ٢٠) چونکہ حضرت مسیح کو یہ بتانا منظور ہے کہ زمانہ محمدی اللہ کا پسندیدہ اور اس زمانہ کے لوگ اللہ کے برگزیدہ ہونگے۔ اس لئے انہوں نے اسی زمانہ کو اللہ کی بادشاہت کے نام سے موسوم کر کے سمجھایا۔ معاند کفارنا ہنجار جو مسلمانوں کی ہلاکت اور تباہی کے دن شمار کرتے ہیں وہ ان کی ترقی کی وجہ سے حیران ہوں گے۔ اور جی کے جی ہی میں جلتے ہوں گے۔ کہ ہیں یہ کیا ہو رہا ہے ہم تو سمجھے بیٹھے تھے کہ یہ مسلمان عنقریب مٹ جائیں گے اور یہ بڑھ رہے ہیں خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا مگر ان کی یہ جلن اور کاوش خود ان ہی کا نقصان کرے گی مسلمانوں کو نقصان نہ ہوگا کیونکہ اللہ نے ایمانداروں سے اور خاص کر جو ان میں سے نیک اعمال کرتے ہیں ان سے بخشش اور بڑے بدلہ کا وعدہ کیا ہوا ہے جو کبھی غلط نہ ہوگا۔ ہاں یہ بات البتہ قابل فہم ہے کہ بخشش کا ظہور تو آخرت میں ہوگا۔ مگر بڑے بدلہ کا ظہور اسی دنیا میں بھی ہوگا۔ جس سے معاندین کفار جلیں گے یعنی وہ فتوحات ملکی ہوں گی جن سے مسلمان دنیا کی زندہ اور ممتاز قوموں میں شمار ہوں گی چنانچہ یہ سب کچھ زمانہ خلافت میں ہوگیا۔ الحمدللہ۔