سورة الفتح - آیت 18

لَّقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بلاشبہ یقیناً اللہ ایمان والوں سے راضی ہوگیا، جب وہ اس درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کر رہے تھے، تو اس نے جان لیا جو ان کے دلوں میں تھا، پس ان پر سکینت نازل کردی اور انھیں بدلے میں ایک قریب فتح عطا فرمائی۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(18۔28) اسی کا نتیجہ ہے کہ اللہ ان ایمانداروں سے راضی ہوا ہے۔ جب وہ حدیبیہ کے مقام پر ایک درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کرتے تھے اس نیت سے کہ راہ اللہ میں جان دے دیں گے۔ مگر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ جو ان کے دلوں میں اخلاص اور حق کی حمائت کا جوش تھا۔ اللہ کو سب معلوم تھا۔ (آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ شریف سے مکہ کی طرف آئے نیت آپ کی یہ تھی کہ کعبہ شریف کی زیارت کیں گے مکہ والوں نے اندر آنے سے روک دیا۔ آپ نے قریب مکہ حدیبیہ مقام پر ڈیرہ کیا۔ خطرہ جنگ پیدا ہوگیا۔ تو صحابہ کرام سے بیعت جدید لی کہ جنگ سے منہ نہ پھیریں گے۔ جنگ تو نہ ہوئی۔ تیاری چونکہ نیک نیتی سے تھی۔ اس لئے بطور رضا نامہ کے یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ) (صلح حدیبیہ کے بعد خیبر (عرب) فتح ہوا تھا۔ اس کی طرف اشارہ ہے۔ منہ) اسی کا نتیجہ ہوا کہ اللہ نے انکو دشمنوں کے نرغے سے بچا لیا۔ اور ان کی جو گھبراہٹ ہوئی تھی اس کے دور کرنے کو ان پر تسلی اتاری کہ وہ سمجھ گئے کہ جو رسول فرماتے ہیں وہی بہتر ہے اور اسی میں خیر ہے اور اس اطاعت اور صبر وسکون کے بدلہ میں ان کو ایک قریبی ! فتح دی جس سے ان کی ڈھارس بند گئی ضعف جاتا رہا قوت آگئی اس کے سوا اور کئی غنیمتیں اور فوائد عطا کئے جن کو وہ مسلمان لیتے رہے اور اپنے کام میں لاتے رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے اس کے کاموں کی حکمتوں کو وہی جانتا ہے۔ دنیا میں بڑے باحکمت مدبران سلطنت ہوتے ہیں جن کی سیاسی چالیں بڑی گہری ہوتی ہیں جن کی تہ تک پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے اسرار ان سب سے بالاتر ہیں اس اعتقاد کے ساتھ سنو ! اللہ نے تم سے بہت سی فتوحات اور غنیمتیں دینے کا وعدہ کیا ہے جن کو تم حاصل کرو گے پھر اسی اللہ نے اپنے کمال مہربانی سے یہ غنیمت فتح خیبر تم کو جلدی دلوا دی اور لوگوں کو تم سے روک دیا۔ باوجود کثرت مخالفین کے وہ تم پر غالب نہ آسکے۔ اس کا نتیجہ تمہارے حق میں فتح ہوئی تاکہ یہ واقعہ ایمانداروں کے لئے اللہ کے وعدوں کی سچائی کی ایک صحیح علامت ہو۔ اور اس کے بعد جب تم مسلمان ایمان میں پختہ ہوجائو تو تم کو روحانی مدارج میں سیدھی راہ پر پہنچا دے جس پر پہنچ جانا ایک ایماندار کے لئے معراج کمال ہے۔ مسلمانو ! سنو تمہارے لئے اللہ کے ہاں مقدر ہے کہ تم کو دو طرح کی فتوحات ہوں گی۔ ایک وعدہ تو تم موجودہ مسلمانان طبقہ اولیٰ کے سامنے اور انہی کے ہاتھوں سے اور ان کے سوا اور فتوحات بھی ہیں۔ جن پر تم نے ابھی تک قابو نہیں پایا۔ مگر اللہ کے علم میں مسلمانوں کے لئے مقدر ہے۔ وہ ضروری میں ت گی۔ فتوحات افغانستان‘ ہندوستان‘ قسطنطنیہ وغیرہ سب اسی قسم میں داخل ہیں۔ اور یہ گمان مت کرو کہ دنیا ساری تو مسلمانوں کے خلاف ہے۔ افریقہ‘ یورپ‘ ایشیا سب ادہار کھائے بیٹھے ہیں۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ مسلمان فتوحات حاصل کرسکیں۔ سو ایسے گمان کرنے والے یقین کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کام پر قدرت رکھتا ہے اس کی قدرت کے مقابلہ میں کسی کو طاقت نہیں اس کے ارادے کے برخلاف کسی کا ارادہ کارگر نہیں ہوسکتا۔ ہمارے (یعنی اللہ کے) ارادہ نصرت کا رخ تمہاری طرف ہوچکا ہے اسی لئے ہم ایک گذشتہ واقعہ کی تم کو خبر دیتے ہیں کہ کافر لوگ جو مقام حدیبیہ میں تم سے مقابل ہوئے تھے اگر باز نہ آتے اور بضد لڑنے ہی پر مصر ہو کر تم سے لڑنے لگتے تو انجام یہ ہوتا کہ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے ایسے بھاگتے کہ پھر کسی کو نہ اپنا حامی پاتے نہ مددگار۔ باوجود اس علم صحیح اور تقدیر کامل کے ہم نے تم کو ان مشرکین سے مصالحت کرنے کی ترغیب دی کیونکہ ان لوگوں کا بالکل تہس نہس کردینا ہمیں منظور نہیں۔ ان میں سے بعض کا اور ان کی اولاد میں سے اکثر کا دینی خادم ہونا ہمارے علم میں مقدر ہے۔ تم لوگ ہمیشہ قانون الٰہی کو ملحوظ رکھا کرو۔ جو پہلی قوموں میں گذرا ہے۔ اور آئندہ بھی جاری ساری رہے گا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو قوم اپنی انسانی حد سے نکل کر غرور اور تکبر تک پہنچی وہ بقول ؎ حباب بحر کو دیکھو کہ کیسا سر اٹھاتا ہے تکبر وہ بری شے ہے کہ فورا ٹوٹ جاتا ہے اس قانون کے ما تحت گر جاتی ہے یاد رکھو الٰہی قانون میں تم کبھی تبدیلی نہ پائو گے یہ ایک الٰہی قانون ہے کہ زمین جب بداعمالیوں کی غلاظت سے جب خراب ہوجاتی ہے۔ تو اس کی صفائی کے لئے اللہ کوئی منتظم بشکل مصلح بھیجا کرتا ہے۔ چنانچہ اس زمانہ کا مصلح اعظم دنیا میں آگیا اور تم لوگ جو اس کے تابع ہوئے ہو بہت خوش قسمت ہو۔ سنو ! وہی اللہ تمہارا مددگار ہے جس نے ان مخالفوں کے ہاتھوں کو میدان مکہ میں تم سے روک دیا۔ یعنی انکو تم پر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی اور ان پر قابو دینے کے بعد تم کو ان سے ہٹا لیا۔ یعنی میدان حدیبیہ میں جنگ نہ ہونے دی۔ حالانکہ تم اتنی طاقت میں تھے کہ یقینا ان پر فتح پاتے۔ مگر دنیا کو دکھانا منظور تھا کہ مسلم قوم حتی الامکان صلح جو ہے نہ جنگ جو۔ نیز بیت الحرام کی حرمت ملحوظ تھی۔ جو کچھ تم سے اس وقت یہ کام بہ نیت نیک ظہور میں آیا تھا اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ سب کو دیکھتا تھا۔ اس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں۔ دیکھو اس سے زیادہ صلح جوئی کی مثال اور کیا ہوگی کہ جن سے تم کو لڑنے سے روکا تھا وہ لوگ وہی تو ہیں جو خود تو کافر ہیں اور تم کو مسجد الحرام کعبہ شریف میں نماز پڑھنے سے انہوں ہی نے روکا اور مسلمانوں کی قربانیوں کو قربانگاہ میں پہنچنے سے روک رکھا۔ وہ اپنی جگہ پر کھڑی کی کھڑی رہ گئیں ان کا یہ ظلم اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ اگر مومن مرد اور مومن عورتیں مکہ معظمہ میں ایسے چھپے ہوئے نہ ہوتے جن کو تم مسلمان لوگ نہیں جانتے تھے اس بے علمی میں کہیں تم ان کے پائوں تلے نہ روند دیتے یعنی تم لوگ ناواقفی میں ان کو بھی قتل کردیتے۔ پھر اس بے خبری کے فعل سے تم کو ان کی وجہ سے اللہ کے ہاں سے نقصان پہنچتا۔ سو اگر یہ امر مانع نہ ہوتا کہ خفیہ مسلمانوں کی جانیں ضائع ہوں گی ( تو اللہ تم کو جنگ کرنے کی اجازت دے دیتا) لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے تمہاری مصالحت کرائی ( صحابہ کرام اس مصالحت سے خوش نہ تھے۔ بلکہ لڑنے کو اس صلح پر ترجیح دیتے تھے کیونکہ مصالحت میں شروط دل شکن تھیں۔ اسی ناراضگی میں جو بالکل نیک نیتی سے تھی۔ صحابہ کرام کے منہ سے کچھ الفاظ تیز بھی نکل گئے تھے جو سب معاف ہوگئے منہ) تاکہ اللہ ان کافروں میں سے جس کو چاہے اپنی رحمت (دین اسلام) میں داخل کرے تم دیکھو گے کہ اس مصالحت میں اسلام کی ترقی جنگ سے زیادہ ہوگی۔ اور اگر وہ ضعیف کمزور مخفی مسلمان اہالیٔ مکہ سے ممتاز ہوئے ہوتے یعنی وہ ان سے ایسے الگ ہوتے کہ تم انکو پہچان سکتے تو ہم (اللہ) ان اہالی مکہ میں سے کافروں کو تمہارے ہاتھوں سے سخت عذاب پہنچاتے لیکن مصلحت اور حکمت الٰہی یہ تھی کہ غریب کمزور مسلمان لوگ نہ پسجائیں کیونکہ تم لوگوں کو ان کا علم اور پہچان نہ تھی ورنہ وہ خوب موقع تھا جب کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلیت کی ضد پیدا کرلی تھی اور محض ضد سے مسلمانوں کو روک رہے تھے۔ جس سے مسلمانوں کو سخت پریشانی تھی۔ تو ایسے حال میں اللہ نے اپنے رسول اور رسول کے ساتھی ایمانداروں پر تسلی نازل کی اور ان کو اللہ نے حق گوئی پر جمائے رکھا کیونکہ رسول کی صحبت سے وہ اسی لائق تھے اور اس منصب کے بہت زیادہ حق دار اور لائق تھے۔ اس لئے اللہ نے ان کو ایسے نازک موقع پر لغزش کرنے سے بچایا۔ اور محفوظ رکھا۔ کیونکہ اللہ ہر چیز کو جانتا ہے جو جس لائق ہے اس کو وہی دیتا ہے۔ سنو ! بڑی گھبراہٹ اس وقت مسلمانوں کو اس امر کی تھی کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک خواب دیکھا اور بیان کیا۔ مسلمانوں کے خیال میں وہ خواب اس وقت پورا نہ ہوا جو وقت انہوں نے سمجھا تھا۔ حالانکہ اللہ نے اپنے رسول کا سچا خواب بالکل سچا کردیا۔ سرمو اس میں غلطی نہ رہی جس کا مضمون یہ تھا کہ تم مسلمان لوگ مسجد الحرام کعبہ شریف میں داخل ہوں گے اس حال میں کہ بعد احرام تم میں سے بعض سر منڈائے اور بعض بال ترشوائے ہوئے ہوں گے۔ کسی کا خوف تم کو نہ ہوگا۔ مگر چونکہ علم الٰہی بہت وسیع ہے اور تمہارا علم ناقص ہے اللہ کے علم میں وہ بات تھی جو تمہارے ناقص علم میں نہ تھی۔ پس اللہ نے اس خواب کے ظہور سے پہلے ایک فتح قریب تم کو دی جس کا نام خیبر ہے اگر تم مسلمان یہاں مکہ میں لڑنے لگ جاتے اور تمہاری طاقت کمزور ہوجاتی تو تم خیبر میں فتح نہ پا سکتے۔ جس اللہ نے تم کو یہ سب کچھ دیا اسی اللہ نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ چونکہ اللہ نے بمصلحت خود اس رسول کو بھیجا ہے اس لئے وہ بحکمت ہی اس کی مدد کرتا ہے۔ تاکہ اس نبی کو غیر اسلام سب اہل مذاہب پر غالب ! کرے۔ تم دیکھ لوگے کہ تمہارے سامنے جتنے لوگ غیر اسلام مذاہب کے پیرو ہیں (ہمارے ملک پنجاب میں ایک صاحب مزرا غلام احمد قادیانی ہوئے ہیں جن کی وفات ٢٦ ١٣ ھجری مطابق ٢٦ مئی ١٩٠٨ ء میں ہوئی ہے۔ موصوف کا دعوی شروع سے ملہم ہونے کا تھا۔ آخر میں مسیح موعود اور مہدی معہود تک پہنچا۔ انہوں نے ابتدائی دعوی الہام میں ایک کتاب لکھی جس کا نام ہے ” براہین احمدیہ“ اس کے متعلق ان کا دعوی ہے کہ یہ کتاب مجھ سے اللہ لکھواتا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے اس آیت (ھو الذی) کی نسبت یوں لکھا ہے :۔ ھوا لذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ۔ یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح (علیہ السلام) کے حق میں پیشگوئی ہے اور جس غلبہ کا ملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا۔ اور جب مسیح (علیہ السلام) دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا“ (صفحہ ٤٩٨۔ ٤٩٩۔ جلد چہارم) اس عبارت کا مطلب بالکل صاف ہے کہ (بقول مرزا صاحب) اس آیت میں جس غلبہ اسلام کا ذکر ہے وہ دو طرح سے ہوگا۔ دینی اور سیاسی یعنی مسیح موعود جو امت اسلامیہ کے افسر ہو کر دوبارہ اس دنیا میں آئیں گے ان کی اسلامی حکومت تمام دنیا میں ہوگی اور وہ حکومت اسلام کی تبلیغ کرے گی۔ یہاں تک کہ ساری دنیا میں اسلام ہی اسلام پھیل جائے گا۔ ْْجناب موصوف نے اس کے بعد خود مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے کا دعوی کیا۔ فرمایا کہ میں ہی دونوں عہدوں کا منصب دار ہوں چنانچہ اپنی مشہور اور مستند کتاب ” ازالہ وہام“ میں اپنے موعود ہونے کا (بخیال خویش) کئی صفحات پر ثبوت پیش کیا۔ (ملاخطہ ہو ازالہ مذکوراز صفحہ ٦٦٥ طبع اول) گو دعوی میں تبدیلی ہوئی لیکن مقام شکر ہے کہ آیت موصوفہ کی تفسیر کے متعلق آخر تک انہوں نے تبدیلی نہیں کی۔ بلکہ اپنی آخری تصنیف میں بھی اسی رائے کو بڑی شدو مد اور بڑی تاکید شدید سے ظاہر کیا۔ چنانچہ آپ کے اپنے الفاظ درج ذیل ہیں : ” چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے اور آپ خاتم الانبیاء ہیں اس لئے اللہ نے یہ نہ چاہا کہ وحدت اقوامی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں ہی کمال تک پہنچ جائے کیونکہ یہ صورت آپ کے زمانہ کے خاتمہ پر دلالت کرتی تھی۔ یعنی شبہ گذرتا تھا کہ آپ کا زمانہ وہیں تک ختم ہوگیا۔ کیونکہ جو آخری کام آپ کا تھا وہ اسی زمانہ میں انجام تک پہنچ گیا۔ اس لئے اللہ نے تکمیل اس فعل کی جو تمام قومیں ایک قوم کی طرح بن جائیں اور ایک ہی مذہب پر ہوجائیں۔ زمانہ محمدی کے آخری حصہ میں ڈال دی۔ جو قرب قیامت کا زمانہ ہے۔ اور اس تکمیل کے لئے اسی امت میں سے ایک نائب مقرر کیا۔ جو مسیح موعود کے نام سے موسوم ہے اور اسی کا نام خاتم الخلفا ہے پس زمانہ محمدی کے سر پر آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ اور اس کے آخر میں مسیح موعود ہے اور ضرور تھا کہ یہ سلسلہ دنیا کا منقطع نہ ہو جب تک کہ وہ پیدا نہ ہولے کیونکہ وحدت اقوامی کی خدمت اسی نائب النبوت کے عہد سے وابستہ کی گئی ہے اور اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے۔ اور وہ یہ ہے۔ ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ (چشمہ معرفت ٨٢۔ ٨٣) اس کتاب کے سرورق پر تاریخ اشاعت ٥۔ مئی ١٩٠٨ ء مرقوم ہے۔ اور مرزا صاحب کا انتقال ٢٦ مئی ١٩٠٨ ء کو ہوا ہے اس لئے یہ کتاب آپ کی آخری کتاب ہے۔ عبارت منقولہ کا مطلب صاف اور واضح ہے۔ یعنی مسیح موعود کے آنے پر دنیا میں سیاسی اور دینی غلبہ اسلام ہی کا ہوگا۔ اسلام ہی کی حکومت ہوگی۔ اسلام ہی ساری قوموں کا دین ہوگا۔ قوانین تعزیرات وغیرہا سب اسلام کے ہوں گے۔ وغیرہ ناظرین ! ذرہ تکلیف کرکے مکرر عبارت مرقومہ کو پڑھیں اور غور کریں کہ مرزا صاحب کی پہلی عبارت منقولہ از براہین احمدیہ اور یہ دونوں کیسی متحد المعنی ہیں۔ ان دونوں کا مطلب وہی ہے جو ہم نے بتایا کہ مسیح موجود کے زمانہ میں ساری دنیا میں اسلام ہی کا طوطی بولے گا“ اور اسلام ہی کا بول بالا ہوگا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ مسیح موعود (مرزا) آئے اور چلے گئے مگر یہ صداقت کسی سے مخفی نہیں کہ اسلام اہل اسلام کی حالت زار پہلے سے بھی بد بلکہ بدترین ہوگئی۔ اس امر کا ثبوت (کہ مسلمان گزشتہ صدی سے زیادہ گر گئے) دینے کی حاجت نہیں۔ تاہم خود خاندان مرزائیہ ہی سے پیش ہوسکتا ہے۔ موجودہ بادشاہ انگلستان کا ولیعہد شہزادہ ویلز جب ١٩٢٢ ء میں ہندوستان میں آئے تو مرزا صاحب کے بیٹے میاں محمود خلیفہ حال قادیاں نے ان کو ایک تحفہ کتاب کی صورت میں پیش کیا جس کا نام ہے تحفہ شاہزادہ ویلز“ اس میں سے ایک دو فقرے ہم نمونۃً دکھاتے ہیں۔ خلیفہ قادیاں شاہزادہ موصوف کو مخاطب کرکے کہتے ہیں : ” اے شاہزادہ مکرم ! یہ تحفہ اس جماعت (احمدیہ) کی طرف سے آپ کی خدمت میں پیش ہو رہا ہے جس نے تیس سال سے زیادہ عرصہ تک آپ کی دادی آنجہانی علیا حضرت ملکہ وکٹوریہ اور ان کے بعد آپ کے دادا آنجہانی ایڈورڈ ہفتم اور پھر آپ کے مکرم معظم والد اپنے موجودہ بادشاہ کی وفا داری اور اطاعت میں اپنوں اور بیگانوں سے گونا گون تکالیف اٹھائی ہیں۔ اور اس کے بدلہ میں وہ حکومت سے کبھی بھی کسی صلہ کی طالب نہیں ہوئی : اس جماعت کا شروع سے یہ دستور العمل رہا ہے۔ اور اس کے بانی نے یہ شرط رکھی تھی کہ حکومت وقت کی پوری فرمانبرداری کی جائے“ (کتاب تحفہ شاہزادہ ویلز صفحہ ٤۔ ٥) غرض قادیانی امت انگریزی حکومت کو بزبان قال بتا رہی ہے کہ ہم نے آپ کی ایسی ایسی اطاعت کی کہ کوئی نہ کرے اس اطاعت میں ہماری کیفیت یہ ہوئی کہ گویا یہ شعر ہمارے حق میں صادق آیا۔ کسی سچے عاشق نے اپنے معشوق کے حق میں لکھا ہے دشمن کے طنز دوست کے پند‘ آسماں کے جور کیا کیا مصیبتیں نہ سہیں تیرے واسطے؟ ہماری غرض اس عبارت کے نقل کرنے سے یہ دکھانا ہے کہ سیاست اور حکومت کہاں؟ خود مزرا صاحب اور ان کا خاندان بھی ہنوز معمولی پستی (رعایا کی حیثیت) میں ہیں تابدیگراں چہ رسد۔ جب یہ سوال مرزا صاحب کے مریدین کے سامنے پیش کیا گیا اور بتایا گیا کہ وہ کام جس کے لئے مسیح موعود کو آنا تھا چونکہ وہ مرزا صاحب کے آنے سے پورا بلکہ ادھورا بھی نہیں ہوا۔ (رسالہ شہادت مرزا) تو انہوں نے (بحوالہ تریاق القلوب مصنفہ مرزا صاحب ص ٣٧٨ طبع دوم) جواب دیا کہ مسیح موعود کا زمانہ تین سو سال تک ممتد ہے۔ مطلب یہ کہ جب تک تین سو سال ختم نہ ہوں یہ سوال وارد نہیں ہوسکتا۔ مرزا صاحب قادیانی نے خود اسی کتاب (چشمہ معرفت) میں اس جواب کو گویا غلط بتایا ہوا ہے۔ چنانچہ آپ کے الفاظ اس بارے میں یہ ہیں :۔ ”(غلبہ کاملہ) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں کامل طور پر ظہور پذیر ہونا ناممکن تھا۔ کیونکہ اس کے لئے یہ شرط تھی کہ دنیا کی تمام قوموں کو جو مشرق اور مغرب اور جنوب اور شمال میں رہتی ہیں یہ موقعہ مل سکے کہ وہ ایک دوسرے کے مقابل پر اپنے مذہب کی تائید میں اللہ سے چاہیں جو آسمانی نشانوں سے اس مذہب کی سچائی پر گواہی دے۔ مگر جس حالت میں ایک قوم دوسری قوم سے ایسی مخفی اور محجوب تھی کہ گویا ایک دوسری دنیا میں رہتی تھی۔ تو یہ مقابلہ ممکن نہ تھا۔ اور نیز اس زمانہ میں بھی اسلام کی تکذیب انتہاء تک نہیں پہنچی تھی اور ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا کہ اللہ کی غیرت تقاضا کرے کہ اسلام کی تائید میں آسمانی نشانوں کی بارش ہو مگر ہمارے زمانہ میں وہ وقت آگیا۔ کیونکہ اس زمانہ میں گندی تحریروں کے ذریعہ سے اس قدر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسلام کی توہین کی گئی ہے کہ کبھی کسی زمانہ میں کسی نبی کی توہین نہیں ہوئی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں تو ثابت نہیں ہوتا کہ کسی عیسائی یا یہودی نے اسلام کے رد اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توہین میں دو یا تین ورق کا رسالہ بھی لکھا ہو۔ مگر اب اس قدر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توہین اور اسلام کے رد میں کتابیں لکھی گئیں اور اشتہار شائع کئے گئے۔ اور اخباریں تمام دنیا میں پھیلائی گئیں۔ کہ وہ تمام جمع کی جائیں تو وہ ایک بڑے پہاڑ کے برابر طومار ہوتا ہے۔ بلکہ اس سے زیادہ۔ ان اندھوں نے اسلام کو ہر ایک برکت سے بے بہرہ قرار دیا ہے اور دعوی کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی آسمانی نشان نہیں دکھلایا اور اس بات پر زور دیا ہے؟ دنیا میں اسلام کا نام ونشان نہ رہے۔ اور ایک عاجز انسان کی الٰہی ثابت کرنے کے لئے اللہ کے پاک رسول کی وہ توہین کی گی ہے جو ابتدائے دنیا سے آج تک کسی دین اور کسی رسول کی ایسی توہین نہیں ہوئی اور درحقیقت یہ ایسا زمانہ آگیا ہے کہ شیطان اپنے تمام ذریات کے ساتھ ناخنوں تک زور لگا رہا ہے کہ اسلام کو نابود کردیا جائے اور چونکہ بلاشبہ سچائی کا جھوٹ کے ساتھ یہ آخری جنگ ہے۔ اس لئے یہ زمانہ بھی اسبات کا حق رکھتا تھا کہ اس کی اصلاح کے لئے کوئی اللہ کا مامور آوے پس وہ مسیح موعود ہے جو موجود ہے اور زمانہ حق رکھتا تھا کہ اس نازک وقت میں آسمانی نشانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی دنیا پر حجت پوری ہو۔ سو آسمانی نشان ظاہر ہو رہے ہیں اور آسمان جوش میں ہے کہ اس قدر آسمانی نشان ظاہر کرے کہ اسلام کی فتح کا نقارہ ہر ایک ملک میں اور ہر ایک حصہ دنیا میں بج جائے۔ اے قادر اللہ ! تو جلد وہ دن لا کہ جس فیصلہ کا تو نے ارادہ کیا ہے وہ ظاہر ہوجائے اور دنیا میں تیرا جلال چمکے اور تیرے دین اور تیرے رسول کی فتح ہو۔ آمین ثم آمین“ (چشمہ معرفت صفحہ ٨٦۔ ٨٧) یہ عبارت بآواز بلند کہہ رہی ہے کہ مسیح موعود جس زمانہ میں موجود ہوگا اسی زمانہ میں اسلام کو غلبہ کاملہ ہونا مقدر ہے جو افسوس ہی نہیں ہوا ! پس نتیجہ صاف ہے کہ مرزا صاحب باقرار خود مسیح موعود نہیں۔ بلکہ محض مدعی ہیں جس کی نسبت کہا گیا ہے ؎ مدعی چوں رگ گردن بضرازد بجدل نیم تصدیق بیانش نہ و تحسینش کن (منہ) سب اس کے سامنے جھک جائیں گے۔ تم یقینا جانو ایسا ہی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اس امر پر خود گواہ کافی ہے۔ اس کی گواہی آئندہ امور غیب کے متعلق ایک خبر ہوتی ہے جو ہمیشہ سچی ہوا کرتی ہے۔ مگر تم مسلمانوں کو ایسا خیال نہ کر بیٹھنا چاہیے کہ بس اب وعدہ ہے تو خود بخود ہوجائے گا۔ ہمیں اس میں ہاتھ پیر ہلانے کی کیا ضرورت؟ سنو ! تم کو بھی ضرورت ہے اللہ کے کام ہمیشہ قانون اور قواعد الٰہی کے ماتحت ہوتے ہیں۔ فتوحات اور قوت حاصل کرنے کا بھی ایک طریق ہے۔ جس کا نام اتفاق ہے۔ اس لئے تم مسلمانوں کو بھی چاہیے۔ کہ ایسے ہوجائو کہ تم کو دیکھنے والا حیرت زدہ ہوجائے۔ اور اس کے منہ سے بے ساختہ نکلے۔ کہ واہ کیا شان ہے۔