سورة الفتح - آیت 1

إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے شک ہم نے تجھے فتح دی، ایک کھلی فتح۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔17) اے نبی (علیہ السلام) ہم نے تجھے کھلی فتح دی ہوئی ہے جو عنقریب ظاہر ہوگی جسے تمام دنیا دیکھ اور سن لے گی تاکہ اللہ تجھ پر ظاہر کرے کہ اس نے تیرے اگلے پچھلے سارے گناہ بخشے ہوئے ہیں نبوۃ سے پہلے کی غلطیاں اگر کچھ ہوئی ہیں تو وہ اور بعد نبوۃ جو سہو ونسیان ہوا ہے وہ بھی معاف ہوگا۔ کیونکہ قاعدہ شاہی ہے کہ ” سلام کاریگراں معاف“ چونکہ تو اے نبی اللہ احکام کی تبلیغ میں شب وروز لگا رہتا ہے اس لئے بطور انعام تجھے یہ سب کچھ دیا گیا ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ تو اس کا رسول ہے اس لئے کہ تو نے جو پیش گوئیاں کی ہیں وہ سچی ثابت ہوئی ہیں جن سے تیرا صدق اور اللہ کا جلالی ثابت ہوتا ہے (آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب دیکھا تھا کہ ہم کعبہ شریف کا طواف کر رہے ہیں۔ خواب دیکھتے ہی سفر شروع کردیا۔ وہاں مشرکین مکہ مانع ہوئے آخر صلح ہوئی کہ آئندہ سال طواف کو آئو اور نو سال تک لڑائی بند۔ انہی نو سالوں میں مشرکین کی طرف سے بدعہدی ہوئی جس پر حضور (علیہ السلام) نے فوج کشی کرکے بغیر جنگ مکہ فتح کرلیا۔ صلح حدیبیہ کے بعد یہ سورت نازل ہوئی فتح سے مراد سلسلہ فتوحات ہے صلح حدیبیہ اس کی تمہید تھی (منہ) اور تاکہ اللہ تجھ پر اپنی مقدرہ نعمت پوری کرے یعنی جو فتوحات اور برکات تیرے لئے مقدر کی ہیں ارشاد الٰہی ہے کہ وہ تجھے ملیں اور تیرے نصب العین ترقی اسلام اور فتوحات ملکی میں تجھے سیدھی راہ دکھائے۔ بلکہ مقصود پر پہنچائے اور تیری زبردست مدد کرے۔ یہ سب واقعات بتدریج اپنے اپنے وقت پر ہو رہیں گے یقینا جانو کہ ایسا ہی ہو کر رہے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ کیا تمہیں وہ واقعات یاد نہیں جو مقام حدیبیہ پر ہوئے تھے۔ قدرت کے کیسے کرشمے ظاہر ہوئے تھے۔ سب سے پہلے قابل ذکر تو مسلمانوں کی گھبراہٹ کا دور کرنا ہے دنیا کی کوئی طاقت نہ تھی جو اس وقت مسلمانوں کو تسلی دے سکتی۔ وہ اللہ ہی تھا جس نے ایمانداروں کے دلوں میں تسلی نازل کی تھی تاکہ وہ اللہ کی طرف جھکیں اور ان کے سابقہ یقین میں ترقی ہو۔ جب وہ دیکھیں کہ جو کچھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا اور جس امر پر مصالحت منظور فرمائی وہی بہتر اور مفید ثابت ہوئی اور ہماری رائیں اس کے مقابلے میں ہیچ۔ ورنہ کفار کی کثرت تو کوئی چیز نہ تھی۔ پدی کیا اور پدی کا شوربہ کیا۔ آسمانوں اور زمینوں کی تمام چیزیں اللہ کی فوج ہیں اور یہ فوجیں اللہ کے قبضے میں ہیں جس متکبر سرکش کو سزا دینا چاہے اپنی فوج میں سے جس کو چاہے حکم دے کر اس کو ہلاک اور تباہ کرا دے اس کے حکم سے کسی کو سرتابی ممکن نہیں اور اللہ بذات خود بڑے علم والا اور حکمت والا ہے مصالح کو وہ خود جانتا ہے کسی کے بتانے کی ضرورت نہیں کسی کے اطلاع کرنے کی حاجت نہیں وہ اپنے افعال میں خود حکیم ہے اس کے افعال اس کی حکمت پر مبنی ہیں۔ کوئی ناواقف اس کے افعال کی تہ کو نہیں پہنچ سکتا۔ فتح کا ثمرہ کچھ خاص تجھ نبی ہی سے مخصوص نہیں بلکہ امت بھی اس میں شریک ہے کیونکہ وہ کار میں شریک ہیں تو ثواب کار میں کیوں شریک نہ ہوں۔ یہ سب کچھ جو حدیبیہ میں ہوا اور اس کے بعد جو ہوگا اس لئے تاکہ اللہ تعالیٰ پختہ ایماندار مردوں اور عورتوں کو بہشتوں میں داخل کرے جن کے نیچے پانی کی نہریں جاری ہیں نہ چند روزہ اقامت کریں گے بلکہ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور اس لئے ہوا کہ اللہ ان سے گناہ دور کر دے اور کامل بخشش سے ان کو نوازے اور اللہ کے نزدیک یہ بڑی کامیابی ہے جس کو نصیب ہو اس کا بیڑا پار اور جو اس سے محروم رہا اس کا ستیاناس پس یہ سب کچھ ہوگا۔ اور جو لوگ اس کار جہاد میں شریک نہیں ہوئے بلکہ مخالف رہے یعنی منافق مردوں‘ منافق عورتوں‘ مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو جو اللہ کے حق میں بدگمانی کرتے ہیں یعنی وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے رسول کی اور اپنے تابعدار غلاموں کی مدد نہ کریں گے اور یہ لوگ (مسلمان) گردش زمانہ سے تباہ ہوجائیں گے غلط ہے اور تاکہ اللہ ان بدگمانوں کو سخت عذاب کرے۔ بھلا یہ ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے بندوں کو لاوارث چھوڑ دیں ؟ یہ تو ہمارے (اللہ کے) حق میں بدگمانی ہے۔ اس بدگمانی کی سزا میں خود ان پر بری گردش آنے والی ہے۔ اور اللہ نے ان پر غضب کیا ہے اور لعنت کی ہے اور ان کے لئے جہنم تیار کر رکھی ہے جو بہت ہی بری جگہ ہے۔ یہ خیال مت کرو کہ اس قسم کے لوگوں میں بہت سے ذی عزت بلکہ حاکم بلکہ بادشاہ بھی ہیں۔ تو ایسے ذی عزت ذی وجاہت لوگوں کو گرفتار اور مبتلاء عذاب کرنا کچھ آسان کام نہیں۔ پس ایسے واہمے کرنے والے سن لیں کہ آسمانوں اور زمینوں کی تمام فوجیں اللہ کے قبضے میں ہیں یعنی آسمان وزمین میں جو چیزیں ہیں وہ سب اللہ کی فوج ہیں اس کے حکم میں ہیں جس چیز کو حکم دے وہی چیز دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ اور آن کی آن میں تباہ کر دے مثلا ہوا جو ہر ذی جان کی زندگی کا سبب ہے اللہ کے حکم سے موت کا سبب بن جاتی ہے۔ اسی طرح پانی جس پر زندگی موقوف ہے اللہ کے حکم سے طوفان کی شکل میں سب کچھ برباد کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ اللہ بذاتہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے اس کے مقابل کسی کی کیا مجال بلکہ کیا ہستی کہ اس کو ہستی کہا جائے یا اس کو شمار میں لایا جائے کیا تم نے نہیں سنا ؎ پناہ بلندی وپستی توئی ! ہمہ نیستند آنچہ ہستی توئی یہ تو ہے ہماری (اللہ کی) ذات اور صفات کا بیان۔ باقی رہا (اے رسول !) تیرا معاملہ سو یہ بالکل واضح ہے کہ تو نہ کسی کام کا ذمہ دار ہے نہ مدار المہام۔ ہم نے تجھ کو ان لوگوں کے حال پر گواہ بنا کر بھیجا ہے جو تیرے سامنے واقع ہو جو تجھ سے برتائو کریں اللہ کے حضور تیرا بیان ہوگا۔ اور نیک کاموں پر خوشخبری سنانے والا اور برے کاموں سے ڈرانے والا۔ بس ان تینوں کاموں کے لئیے تجھ کو دنیا میں رسول بنا کر ہم نے بھیجا ہے۔ تاکہ تم لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور اس میں (اللہ کے دین) کی اشاعت دین میں مدد کرو اور اس (اللہ) کی عظمت دل میں پیدا کرو اور اس (اللہ) کو صبح شام پاکی سے یاد کیا کرو۔ ! (اس آیت کا جو ترجمہ اور تفسیر ہم نے اس جگہ کی ہے۔ عام مفسرین کی رائے ہے۔ ہماری رائے میں اس آیت اور اس جیسی جملہ آئیتوں میں رسول کے شاہد ہونے سے مراد حاکم اور بادشاہ ہے۔ دوسرے پارہ کے شروع میں زیر آیت (لتکونوا شھدآء علی الناس و یکون الرسول علیکم شھیدا) مفصل لکھ آئے ہیں وہاں بلا خطہ ہو۔ (منہ) (اس آیت میں جو تین ضمیریں آئی ہیں میں نے بخوف انتشار ضمائر تینوں کا مرجع ایک (اللہ) ہی رکھا ہے۔ بعض مفسرین اور مترجمین نے پہلی دو ضمیروں کا مرجع رسول اور تیسری کا اللہ بتایا ہے۔ چنانچہ تفسیر القرآن عربی میں میں نے بھی یہی رائے اختیار کی ہے۔ ٍ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لیکن اس موقع پر پہنچ کر میں مرجعوں کے اتحاد کو ترجیح دیتا ہوں۔ حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ نے بھی یہی رائے اخیتار کی ہے۔ (منہ) اے نبی ! تیرے ان تابعداروں پر چونکہ یہ اثر ہوچکا ہے یعنی وہ ان تینوں کاموں میں بخوبی پاس ہوچکے ہیں پس ایسے لوگوں کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ جو لوگ تجھ سے بیعت اطاعت کرتے ہیں اس بیعت کا مطلب اس کے سوا اور نہیں کہ وہ ہر کام میں تیرے تابع رہیں گے اس لئے وہ اللہ کے نزدیک ایسا قرب رکھتے ہیں کہ گویا وہ اللہ سے بیعت کرتے ہیں کیونکہ تو اے نبی ! درمیان میں ایک ذریعہ ہے اصل معاملہ تو اللہ کے ساتھ ہے پس بیعت کے وقت جو تیرا ہاتھ اوپر ہوتا ہے وہ ترتا نہیں ہوتا۔ بلکہ در حقیقت اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوتا ہے کیونکہ دین کی خدمت کے متعلق جتنے وعدے کئے جاتے ہیں وہ سب کے سب در حقیقت اللہ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ پس اب آئندہ کو جو اس وعدہ بیعت کو توڑے گا وہ سمجھ لے کہ اس عہد شکنی کا وبال اسی کی ذات پر ہوگا اور جو کوئی اس وعدے کو پورا کرے گا جو اللہ کے ساتھ اس نے کیا ہے تن من دھن سے فدا ہو رہے گا۔ جو کچھ کہا وہ پورا کر کے دکھائے گا۔ تو ایسے شخص کو اللہ بہت بڑا اجر دے گا۔ (آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حسب ضرورت مواقع مختلفہ میں مختلف مضامین پر صحابہ کرام (رض) سے وعدہ لیتے کبھی اطاعت پر کبھی حسن سلوک پر کبھی جہاد پر خصوصا کبھی اثناء جہاد میں عدم فرار پر اس وعدہ کا نام بیعت ہے اس کو متعلق یہ آیات نازل ہوئیں۔ (منہ) (جہاد کے لئے کوئی ساری باقاعدہ فوج نہ تھی بلکہ ہر بالغ مسلمان فوجی تھا۔ جس کو ہر وقت بلایا جاتا تھا بعض دیہاتی لوگوں نے حاضری میں سستی کی اس آیت میں ان کا ذکر ہے۔ (منہ) یہ مبایعین تو ماشاء اللہ ہر طرح خدمت دینی کو حاضر ہیں۔ اور حاضر رہیں گے لیکن ان کے مقابلہ میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کی خدمات کو دوبھر جانتے ہیں مگر منہ کے لحاظ سے ہاں ہوں کرتے ہیں چنانچہ پیچھے رہنے والے ! دیہاتی لوگ تیرے سامنے آکر کہیں گے ہمارے مال اور اہل وعیال نے ہم کو دینی خدمت سے روک رکھا ہم اپنی خانگی ضرورتوں کی وجہ سے شریک نہیں ہوسکے۔ ورنہ دل سے تو دین کے سچے خادم ہیں۔ پس ہمارا عذر قبول کر کے حضور ہمارے لئے دعائے مغفرت فرما دیں اللہ ہم کو بخشے اور آئندہ کو توفیق دے۔ ہم (اللہ) تجھ کو آگاہ کئے دیتے ہیں کہ یہ لوگ زبانوں سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں۔ دل میں تو کھوٹ ہے مگر ظاہر کرتے ہیں وفا۔ دل میں کفر ہے مگر ظاہر کرتے ہیں ایمان۔ تو اے نبی ! ان کو کہہ کہ اگر اللہ تمہارے حق میں ضرر چاہے یا فائدہ کا ارادہ کرے تو کون ہے جو اللہ سے ورے تمہارے لئے کچھ اختیار رکھے ؟ یعنی تم جو مال اور اہل وعیال کی وجہ سے دینی خدمت سے رکتے ہو۔ اگر اللہ تمہارے مال اور عیال پر بلکہ خود تمہاری جانوں پر کوئی آفت نازل کرے تو کون تم کو بچا سکے گا؟ اور اگر وہ اللہ تم کو دینی خدمت کے عوض کوئی فائدہ پہنچائے تو کون اسے روک سکے گا؟ اس لئے تمہارے عذرات سب غلط ہیں۔ تمہارے منہ کی باتیں صحیح نہیں۔ ہاں اللہ کو تمہارے اعمال کی خبر ہے۔ دراصل بات کچھ نہ تھی نہ تم کو گھر میں مشغولی تھی نہ کھیتوں میں کام تھا بلکہ تم نے خیال کیا تھا کہ اس مصیبت کے وقت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمان کوئی بھی اپنے اہل وعیال کی طرف کبھی بھی واپس نہیں آئیں گے سب کے سب میدان جنگ میں کام آئیں گے جس سے تم اپنے دل میں خوش ہو رہے تھے کہ ہمیشہ کے لئے جان چھوٹ جائے گی ” جان بچی لاکھوں پائے“ اور یہ خیال تمہارے دلوں میں بڑی خوبصورتی سے جاگزین ہوچکا تھا اور بھی تم لوگوں نے بڑی بڑی بدگمانیاں دل میں کی تھیں دل میں سمجھ لیا کہ اس رسول کے دن ختم ہونے والے ہیں۔ اس کے مرتے ہی قضیہ چک جائے گا۔ اس کے پیچھے نہ کوئی اس کا نام لے گا نہ پوچھے گا۔ یہ تمہارے خیال بہت برے ہیں۔ اور ان ہی کی وجہ سے تم لوگ برباد ہونے والے ہو۔ عنقریب تم دیکھ لوگے خود تمہارا ہی نام لیوا کوئی نہ ہوگا۔ تم ہی سے کیا خصوصیت ہے جو کوئی بھی اللہ اور رسول پر ایمان نہ لائے گا دل سے ان کو نہ مانے گا یا زبانی مان کر ان کی ہدائیتوں پر عمل نہ کرے گا تو اس کی خیر نہیں۔ ہم (اللہ) نے ایسے کافروں بدکاروں کے لئے جہنم کی بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ یہ مت سمجھو کہ ایسے لوگوں کا جتھہ بہت بڑا ہے اور ان کی قوت بہت زیادہ ہے۔ اللہ کی قوت اور قدرت کے سامنے کچھ بھی نہیں کیونکہ زمین پر بندوں میں سے کسی کی حکومت ایک ملک پر ہوگی کسی کی دو پر کسی کی چار پر‘ وہ بھی ناقص اور ادھوری۔ مگر اللہ کی حکومت کی یہ کیفیت ہے کہ تمام آسمانوں اور زمینوں کی حکومت اللہ ہی کے قبضے میں ہے اسی لئے تو اس کی شان ہے وہ جس کو چاہے بخشے اور جسے چاہے عذاب کرے مگر نہ بے وجہ بلکہ باوجہ جس کی تفصیلی اطلاع اس نے بزبان الہام کردی ہے اور اللہ بڑا بخشنہار مہربان ہے اس کی بخشش اور مہربانی اس کے عذاب پر غالب ہے اس لئے کوئی مجرم ذرا بھی جھکے گا۔ تو اس کی صفت غفران اس کو لے لے گی۔ خیر یہ تو اللہ تعالیٰ کا اعلان کا مضمون تھا جو سنایا گیا۔ اب اصل بات کی طرف پھر رجوع کرتے ہیں۔ تاکہ تم کو مزید حالات معلوم ہوسکیں۔ یہ لوگ جن کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ ان کی بابت ہم تم کو بتا چکے ہیں۔ کہ یہ لوگ تمہارے ساتھ کسی طرح شریک کار نہ ہوں گے ہاں جب تم لوگ جنگ جہاد میں غنیمتیں حاصل کرنے کو نکلو گے تو پیچھے رہنے والے لوگ تم سے کہیں گے کہ ہم کو بھی اجازت دیجئے کہ ہم بھی تمہارے ساتھ نہیں تو پیچھے پیچھے چلیں اور دین کی خدمت کر کے ہم بھی کچھ فائدہ حاصل کریں ایسا کہنے سے ان کی نیت نیک نہ ہوگی بلکہ اس کی تہ میں بھی شرارت ہوگی کہ جو اللہ نے ان کی بابت بتایا ہے یہ لوگ اس اللہ تعالیٰ کے کلام کو بدلنا چاہیں گے کہ ہم ذرہ سا ظاہری ساتھ دے کر کہہ سکیں گے کہ دیکھو ہم تو دور تک تمہارے ساتھ گئے حالانکہ تمہارے اللہ نے ہماری بابت پیش گوئی کی تھی۔ کہ ہم تمہارے پیچھے نہ چلیں گے لہٰذا تم مسلمانوں کے اللہ کا دعوی غلط ہوا۔ پس اے نبی ! تم ان سے کہہ دیجیو کہ تم ہرگز ہرگز بغرض شرکت کار ہمارے ساتھ نہ چلو گے اللہ نے ہم کو ایساہی پہلے سے بتایا ہوا ہے جوپورا ہو کر رہے گا۔ یہ تمہارے صرف ظاہر داری کی باتیں ہیں پھر یہ سن کر کہیں گے نہیں ہم تو ظاہر داری نہیں کرتے بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو۔ کہ ہماری شرکت نہیں چاہتے ہو۔ تمہاری غرض یہ ہے کہ ساری خیرو برکت تم ہی حاصل کرلو۔ حالانکہ یہ غلط ہے۔ بھلا تم لوگ ان سے حسد کیوں کرنے لگے تم کو تو آدمیوں اور مددگاروں کی ضرورت ہے جتنے ہوں کم ہیں بلکہ وہ لوگ جو بات منہ سے کہتے ہیں اس کو بھی بہت کم سمجھتے ہیں۔ اگر پوری سمجھتے ہوتے تو آئندہ کو ایسی بات کہنے کی جرأت نہ کرتے جو ان کی بے وقوفی پر دلالت کرتی۔ جتنے لوگ کام سے جی چرانے والے ہیں اسی طرح کی کٹ حجتیں کیا کرتے ہیں۔ پس تو اے نبی ! ان کام چوروں پیچھے رہنے والے دیہاتیوں کو کہہ دے کہ عنقریب تم کو ایک بڑی جنگی قوم کی طرف بلایا جائے گا۔ تم ان سے لڑو گے یا وہ مسلمان ہوجائیں گے۔ یعنی بعض وہ لوگ آخر وقت تک لڑتے رہیں گے اور بعض فرمانبرداری اختیار کر جائیں گے۔ پھر تم لوگ جو ہر کام میں پیچھے رہنے والے ہو۔ اس وقت اسلامی فدائیوں کی طرح اگر احکام کی اطاعت کرو گے تو اللہ تم کو بہت اچھا بدلہ دے گا۔ دنیا میں تمہاری عزت ہوگی آخرت میں جنت ملے گی اور اگر حکم سے منہ پھیرو گے جیسے تم پہلے پھیر چکے ہو۔ تو اللہ تم کو سخت عذاب کرے گا۔ دنیا میں تم دشمنوں کی ماتحتی کی ذلت میں رہو گے اور آخرت میں جہنم میں جائو گے۔ ہاں اس دعوت جنگ سے یہ مقصود نہ ہوگا کہ سب لوگ نکل چلو چاہے نکل بھی نہ سکو نہیں بلکہ خاص خاص لوگ اس حکم سے مستثنیٰ ہوں گے مثلا اندھا۔ لنگڑا‘ مریض جو چل پھر نہیں سکتے۔ ان پر شریک جنگ نہ ہونے میں کوئی گناہ نہیں کیونکہ یہ لوگ حقیقتا معذور ہیں اللہ کے ہاں یہ عام قانون ہے کہ کسی آدمی کو اس کی قوت سے زیادہ حکم نہیں دیا جاتا اور جو کوئی قوت ہو کر کہا مانے۔ اللہ اور رسول کی تابعدار کرے اللہ اس کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے تلے نہریں جاری ہیں جس سے بڑھ کر کوئی انعام واکرام نہیں اور جو کوئی حکم الٰہی سے منہ پھیرے گا۔ اللہ اس کو سخت عذاب کرے گا بس یہ دو حرفہ فیصلہ ہے چاہے کوئی اس کان سنے یا اس کان سنے اللہ کا قانون یہی ہے