سورة محمد - آیت 20

وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌ ۖ فَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ ۙ رَأَيْتَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَأَوْلَىٰ لَهُمْ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور وہ لوگ جو ایمان لائے کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی گئی؟ پھر جب کوئی محکم سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں لڑائی کا ذکر کیا جاتا ہے تو تو ان لوگوں کو دیکھے گا جن کے دلوں میں بیماری ہے، وہ تیری طرف اس طرح دیکھیں گے جیسے اس شخص کا دیکھنا ہوتا ہے جس پر موت کی غشی ڈالی گئی ہو۔ پس ان کے لیے بہتر ہے۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(20۔23) جن لوگوں کو اللہ کے احکام پر ایمان ہے وہ جانتے ہیں کہ ہماری نقل وحرکت سب اللہ کو معلوم ہے اور وہ اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں اس لئے ان کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ ہماری زندگی اور موت اللہ ہی کی راہ میں لگے چنانچہ وہ جہاد کی تمنا میں ہمہ تن شوق ہو کر کہتے ہیں کیوں نہیں کوئی ایسی سورت اتری جس میں جہاد کا حکم ہو تاکہ ہماری مراد بھی بر آئے اور ہم بھی دینی خدمت میں جان بحق تسلیم ہوجائیں کیونکہ سب نکل جائیں گے او قاتل ! ہماری حسرتیں جبکہ سر اپنا ترے زیر قدم دے دیں گے ہم ہاں جو لوگ ظاہری طور سے ایماندار ہیں مگر دل میں منافق اور بے ایمان ہیں وہ بھی ان ایمان داروں کے ساتھ اس قسم کی خواہش میں شریک ہوجاتے ہیں اور جہاد کا حکم مانگتے ہیں پھر جب صاف اور بے لاگ سورت نازل ہوتی ہے جس میں جہاد وقتال کا ذکر اور حکم ہوتا ہے۔ تو اے نبی ! تو دیکھتا ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں ضعف کی بیماری ہے وہ ان ایمانداروں سے ایسے الگ ہوجاتے ہیں جیسے سچے عاشق سے بوالہوس جدا ہوجاتا ہے۔ وہ تجھے یوں تاکتے ہیں جیسے کوئی موت کی بے ہوشی میں پھٹی نظر سے تاکتا ہے۔ ان کی حالت پر یہ رباعی خوب چسپاں ہے۔ ؎ زاہد کہتا تھا جان ہے دین پر قربان پر آیا جب امتحان کی زد پر ایمان کی عرض کسی نے کہئے اب کیا ہے صلاح؟ بولے کہ بھائی جان ! جی ہے تو جہاں پس حکم کی تابعداری کرنی اور بات معقول کہنی ان کے حق میں اچھی ہوتی مگر یہ کو تہ اندیش ہیں کہ دور اندیشی سے کام نہیں لیتے۔ اگر کسی ضروری قومی کام یعنی جہاد وغیرہ کا وقت آجائے اس وقت یہ لوگ اللہ کے ساتھ کیا ہوا وعدہ سچا کریں تو ان کے لئے بہتر ہو۔ یعنی زبانی اطاعت اور تابعداری کا جو اظہار کرتے ہیں کسی کام نہیں اڑے وقت پر کام کرنا کام کی بات ہے پس اب تو تم ایسے لوگوں کا یہ حال ہے۔ کہ اگر تم حکومت پر متمکن ہوجائو تو یقینا ملک میں فساد کرو اور رشتوں کے تعلقات قطع کر ڈالو۔ کیونکہ تم خود غرض ہو اور برسر حکومت قوم کے لئے خود غرضی مہلک ہے یہی خود غرض مفسد لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہے اور ان کو کانوں کی قوت شنوائی سے اللہ نے بہرہ اور ان کی آنکھوں کو بے نور کردیا ہے۔ یہ لوگ نہ واقعات عالم سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں