وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۚ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ۖ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ
اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید کی، اس کی ماں نے اسے ناگواری کی حالت میں اٹھائے رکھا اور اسے ناگواری کی حالت میں جنا اور اس کے حمل اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے، یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری قوت کو پہنچا اور چالیس برس کو پہنچ گیا تو اس نے کہا اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں وہ نیک عمل کروں جسے تو پسند کرتا ہے اور میرے لیے میری اولاد میں اصلاح فرما دے، بے شک میں نے تیری طرف توبہ کی اور بے شک میں حکم ماننے والوں سے ہوں۔
(15۔19) ان محسنین نیکوکاروں کی پہچان ایک اور بھی ہے کہ وہ اللہ کے حقوق ادا کرنے پر بس نہیں کرتے بلکہ مخلوق کے جتنے مراتب ہیں سب سے اچھا سلوک کرتے ہیں سب سے بڑا حق ماں باپ کا ہے محسن لوگ ان کے ساتھ تو بہت ہی اچھا سلوک کرتے ہیں کیونکہ ہم (اللہ) نے ہر انسان کو اس کے والدین کے حق میں احسان کرنے کا حکم دیا ہے۔ باپ کے احسان تو بچہ خود دیکھتا ہے کہ کھانے پینے کو وہی دیتا ہے البتہ ماں کے ابتدائی احسانات اس پر مخفی ہیں اس لئے اس کو بتلائے جاتے ہیں کہ اس کی ماں نے اس کو سخت تکلیف میں اٹھایا اور سخت تکلیف میں اس کو جنا۔ اس کے حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت کم سے کم تیس ماہ (اڑہائی سال) ہوتے ہیں زیادہ سے زیادہ پونے تین سال۔ یہ تو اس کی ابتدائی حالت کا ذکر ہے جس میں وہ بالکل عاجز وناتواں ہوتا ہے پھر جب وہ اپنی قوت کی عمر کو پہنچتا ہے خاص کر جوانی حیوانی سے گزر کر چالیس سال کی عمر کو تب پہنچ جاتا ہے کیونکہ اس عمر تک خود بھی عموماً صاحب اولاد ہوجاتا ہے اس لئے اسے ماں باپ کی خدمات جو پہلے سنے سنائے معلوم تھیں اب مشاہد ہوگئیں لہذا اگر وہ نیک خیال نیکو کار ہے تو اپنی اولاد کو دیکھ کر کہ میں کس طرح اس کی دل سے پرورش کرتا ہوں اپنے ماں باپ کے احسانات یاد کر کے کہتا ہے اے اللہ مجھ کو توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکریہ ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی۔ یعنی وہ ماں باپ کا ایسا سچا خادم اور قائم مقام بنتا ہے کہ ان کی طرف سے بھی اللہ کے احسانات کا شکریہ ادا کرتا ہے اور اپنی ذات خاص کے لئے یہ بھی کہتا ہے اے اللہ مجھے توفیق دے کہ میں ایسے نیک کام کروں کہ تو ان کو پسند کرے اور وہ اللہ سے یہ بھی دعا مانگتا ہے کہ اے اللہ ! میری اولاد کو بھی صالح بناکہ وہ بھی میری روش پر چلیں تاکہ ہم سب تیرے حضور میں سرخ رو ہوں۔ نیک بخت نیکوکار یہ بھی کہتا ہے اے میرے اللہ میں اپنی تمام ضروریات اور تکلیفات میں تیری طرف جھکا ہوا ہوں اور میں تیرے فرمانبردار بندوں میں سے ہوں۔ غرض یہ ہے کہ نیک بخت نیکو کار آدمی ہمیشہ اپنی اور اپنے متعلقین کی خیر وعافیت کے خواہاں رہتے ہیں ہر انسان کے متعلقین اصول اور فروع میں یعنی ماں باپ اور اولاد نیک خصلت نیکو شعار وہ ہیں جو اپنی اپنے ماں باپ کی اور اپنی اولاد کی بھلائی چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کے نیک اعمال ہم قبول کرتے ہیں اور ان کے اخلاص اور حسن نیت کی وجہ سے ان کی برائیوں سے ہم درگزر کریں گے کیونکہ یہ لوگ اہل جنت میں داخل ہیں یہ وعدہ جو ان کو دیا جاتا ہے بالکل سچا ہے اس لئے ضرور پورا ہوگا۔ اور جو نوجوان لڑکا گستاخی میں یہاں تک ترقی کرجاتا ہے کہ اپنے والدین کو جب وہ ان کو وعظ ونصیحت کرتے ہیں حقارت سے ان کو تف کہتا ہے یعنی مقابلہ کرتا ہے اور ان کی نصیحت کے مقابلہ میں کہتا ہے کیا تم مجھے اس سے ڈراتے ہو کہ میں بعد مرنے کے دوبارہ زندہ ہو کر قبر سے نکالا جائوں گا؟ حالانکہ سینکڑوں اشخاص بلکہ کئی ایک قومیں مجھ سے پہلے گزر چکی ہیں وہ تو دوبارہ زندہ نہ ہوئے اور میں زندہ ہو کر اٹھوں گا اور کئے کی سزا جزا پائوں گا یہ تمہارا دیوانہ پن ہے وہ دونوں اس کے ماں باپ شفقت میں اللہ کی دہائی دیتے ہیں اور اس کی ہدایت طلبی میں اللہ سے مدد چاہتے ہیں اور اسے کہتے ہیں تیرا ناس ہو۔ بدمعاشوں کی صحبت میں بیٹھنا چھوڑ دے اللہ پر اور اللہ کے وعدوں پر ایمان لا بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے وہ نالائق گستاخ ماں باپ کی مشفقانہ نصیحت سن کر کہتا ہے جی یہ تو پہلے لوگوں کے افسانے ہیں ان میں اصلیت اور صداقت نام کو نہیں تم کیا کہہ رہے ہو؟ مطلب اس سارے قصے کا یہ ہے کہ بعض اولاد ماں باپ کی پوری تابعدار ہوتی ہے اور بعض نوجوان ایسے بے فرمان ہوتے ہیں کہ ان کی نصیحت کو قبول کرنے کے بجائے ان کی توہین اور ہتک کرتے ہیں اسی لئے انکو سزا بھی ایسی ہی ملتی ہے کہ ان سے پہلے جن اور انسان جو اس قسم کے بدمعاش گذر چکے ہیں ان ہی میں ان پر فرد جرم لگ چکا ہے کیونکہ یہ سارے لوگ اپنی بداعمالی کی وجہ سے خسارے میں تھے ان کی زندگی ان کے مال ان کے اسباب ان کی حکومت سب کے سب ان کے حق میں موجب نقصان تھے اور ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے لئے ان کے کاموں کے مطابق مختلف درجات ہیں جو کچھ کسی نے کیا وہ اس کو ملے گا تاکہ اللہ ان کے کئے ہوئے اعمال کا پورا پورا بدلہ ان کو دے اور کسی طرح ان پر ظلم نہ ہوگا بلکہ جو کچھ انہوں نے یا کسی نے کیا ہوگا وہی ان کو ملے گا نہ سزا میں زیادتی ہوگی نہ جزا میں کمی۔