وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُونَا إِلَيْهِ ۚ وَإِذْ لَمْ يَهْتَدُوا بِهِ فَسَيَقُولُونَ هَٰذَا إِفْكٌ قَدِيمٌ
اور ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، ان لوگوں سے کہا جو ایمان لائے اگر یہ کچھ بھی بہتر ہوتا تو یہ ہم سے پہلے اس کی طرف نہ آتے اور جب انھوں نے اس سے ہدایت نہیں پائی تو ضرور کہیں گے کہ یہ پرانا جھوٹ ہے۔
(11۔12) دیکھو تو بھلا یہ بھی کوئی عذر ہے جو منکر لوگ ماننے والوں کو کہتے ہیں اگر یہ قرآن بہتر ہوتا یعنی اس میں کچھ خوبی ہوتی تو یہ غریب مسلمان لوگ ہم سے پہلے اسے قبول نہ کرتے کیونکہ ہمیشہ سے یہی دستور چلا آیا ہے کہ ہر کار خیر میں ہم امرا کا حصہ مقدم ہوتا ہے۔ پھر یہاں یہ قاعدہ کیوں ٹوٹتا۔ حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ دنیاوی امور میں ان کی سبقت کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ دینی کاموں میں بھی ان کا حصہ مقدم ہے ہرگز نہیں وہ سڑک دوسری ہے یہ لائن جدا ہے مگر چونکہ ان لوگوں نے اس قرآن سے ہدایت نہیں پائی ہے اس لئے کہہ دیں گے کہ یہ دعوی نبوت بہت پرانا جھوٹ چلا آرہا ہے۔ اسی طرح اس مدعی سے پہلے بھی مدعی گزر چکے ہیں ان کا بھی یہی طریق تھا کہ دعوی نبوت کرتے پھر کچھ کرشمے بھی دکھاتے لوگوں سے وعدے بھی کرتے۔ یہ بھی ایسا ہی کرتا ہے اور لوگوں کو اپنی طرف بلاتا ہے حالانکہ اس (قرآن) سے پہلے موسیٰ کی کتاب توریت اپنے زمانہ میں امام اور رحمت تھی اور یہ کتاب قران مجید عربی زبان میں اس سابقہ کتاب کے مضامین کی مصدق ہے تاکہ ان لوگوں کو سمجھائے اور ڈرائے جو بوجہ بدکار کے ظالم ہیں اور نیکوکاروں کے لئے خوشخبری ہے جو تعمیل احکام کرنے سے خوش خبری کے مستحق ہیں۔