إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامٍ أَمِينٍ
بے شک متقی لوگ امن والی جگہ میں ہوں گے۔
(51۔59) آئو اب ان لوگوں کا حال بھی سنو اور دیکھو جن کو تم لوگ بنظر حقارت دیکھا کرتے تھے۔ جو تقویٰ اور پرہیزگاری کی وجہ سے فائز المرام ہوگئے پس سنو ! پرہیز گاری تقویٰ شعار بڑے امن کی جگہ میں ہوں گے یعنی باغوں اور چشموں میں رہیں گے ان باغات میں وہ ریشمی الپا کے اور مخملیں یعنی انکا لباس پہنیں گے اور ملاقاتی مجالس میں حسب دستور ملاقات ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھیں گے۔ واقعہ اسی طرح ہوگا۔ اور ہم ان کو بڑی بڑی آنکھوں والی خوبصورت بیبیوں سے شادی کردیں گے۔ جس سے ان کی زندگی خوش وخرم گذرے گی۔ وہاں وہ متقی بڑے آرام چین سے ہر قسم کے میوے منگا منگا کر کھایا کریں گے اور سوائے پہلی موت کے جو پہلی دفعہ ان پر آچکی ہوگی پھر کسی قسم کی موت نہ چکھیں گے اور بڑی بات ان کے حق میں یہ ہوگی کہ اللہ ان کو جہنم کے عذاب سے بچائے گا کسی حال میں کسی وقت بھی وہ جہنم کی طرف نہ جائیں گے یہ سب کچھ محض اللہ کے فضل سے ہوگا ورنہ اتنی بڑی نعمتیں اور ان کی تھوڑی سی عبادت کیا نسبت رکھتی ہے بس یہی بڑی کامیابی ہے۔ چونکہ ہم کو ان عرب کے لوگوں کا سمجھانا مقدم منظور ہے اسی لئے تو ہم (اللہ) نے اس (کتاب قرآن مجید) کو تیری بولی یعنی عربی محاورے میں آسان صورت میں نازل کیا ہے تاکہ یہ لوگ سمجھیں مگر یہ لوگ ایسے ضدی ہیں کہ سمجھنے پر رخ ہی نہیں کرتے۔ بلکہ بزبان حال اور بزبان قال یہی کہتے ہیں کہ ہم پر عذاب لے آ۔ پس تو اے نبی ! اللہ کے حکم کا انتظار کر تحقیق وہ بھی انتظار کر رہے ہیں۔ نہ عذاب کا لانا تیرے بس میں ہے نہ ہٹانا ان کی قدرت میں۔ جب آیا تو ان سے رکے گا نہیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ قرآن شریف میں جنتیوں کی ازواج کے متعلق دو لفظ آئے ہیں (ایک) اد خلوھا انتم و ازواجکم تحبرون (دوسری) یہ آیت ہے اس میں حوروں کے ساتھ شادی کرانے کا ذکر ہے ان دونوں آیتوں کے ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤمنوں کو دو قسم کی بیویاں ملیں گئیں ایک اپنی دنیاوی منکوحہ۔ دوسری جنت کی ازواج۔ ان میں حسن اور پاکیزگی اعلی درجہ کی ہوگی۔ چنانچہ فرمایا۔ و لھم فیھا ازواج مطھرۃ ستر حوریں ملنے والی روایت کوئی صحیح نہیں۔ اللہ اعلم (منہ)