سورة الدخان - آیت 32

وَلَقَدِ اخْتَرْنَاهُمْ عَلَىٰ عِلْمٍ عَلَى الْعَالَمِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور بلا شبہ یقیناً ہم نے انھیں علم کی بنا پر جہانوں سے چن لیا۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(32۔50) اور ہم (اللہ) نے ان ( بنی اسرائیل) کو اپنے ذاتی علم سے اس وقت کے لوگوں پر فضیلت دی تھی اور ہم نے ان کو ایسے ایسے نشان دئیے تھے کہ ان میں ہماری صریح مہربانی تھی۔ یدبیضا دیا۔ عصا دیا۔ آخر سب سے ان کی خاطر دریا کو روکا۔ اور ان کو بچایا۔ ان واقعات سے یہ نتیجہ صاف پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کے بندوں کا مقابلہ کرنے کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا۔ مگر یہ لوگ عرب کے مشرک ایسے کچھ سڑی ہیں کہ جو کچھ سنتے ہیں اس پر اعتراض کرتے ہیں دیکھو تو جب سنتے ہیں کہ مسلمان کہتے ہیں اعمال کا نیک وبد۔ بدلہ پانے کو قیامت کے روز اٹھنا ہوگا۔ تو یہ کہتے ہیں ارے میاں ! یہی ہماری زندگی ہے اور یہی ہماری ایک ہی دفعہ کی پہلی موت ہوگی اور اس کے سوا ہم قیامت کے روز نہ اٹھائے جائیں گے نہ اٹھیں گے نہ جئیں گے۔ نہ کوئی ہمیں پوچھے گا نہ پاچھے گا یہ تو یار لوگوں کی باتیں ہیں۔ یہ کہہ کر بطور آخری کلام کے یہ کہتے ہیں پس اگر تم مسلمانو ! سچے ہو۔ تو ہمارے باپ دادا کو زندہ کر کے لے آئو۔ ہم بھی ان کی ملاقات کریں اور آخرت کا حال پوچھیں۔ اگر وہ اپنی سرگذشت بتا دیں گے تو ہم سن کر ایمان لائیں گے۔ یہ ہی ان کی کجروی کہ بات کچھ ہے اور سوال کچھ بات تو یہ ہے کہ بعد فناء دنیا تم سب لوگ بغرض جزاوسزا اٹھو گے سوال کرتے ہیں کہ اگر یہ بات سچ ہے تو ہمارے فوت شدہ بزرگوں کو ابھی زندہ کر دو۔ سبحان اللہ۔ بیان از آسماں سوال از ریسماں۔ کیا یہ لوگ اپنی ہستی میں اپنی قوت میں اچھے ہیں یا تبع کی قوم اور جو ان سے پہلے تھے وہ اچھے تھے ہم نے ان سب کو ہلاک اور تباہ کیا۔ بے شک وہ لوگ مجرم تھے۔ اسی طرح ان لوگوں کے ساتھ برتائو کیا جائے گا اور ان کے جواب کی عقلی دلیل سنو ! کہ ہم (اللہ) نے آسمان زمین اور ان کے درمیان کی کل چیزیں کھیل تماشہ کی نیت سے عبث پیدا نہیں کیں بلکہ ہم نے ان کو حق یعنی سچے نتیجے کے ساتھ پیدا کیا ہے بے نتیجہ کام تو عبث ہوتا ہے اور عبث کام کرنا نادانوں کا کام ہے ہم (اللہ) نادان نہیں لیکن بہت سے لوگ اس راز اور اس مسئلہ کو نہیں جانتے۔ وہ نتیجہ کیا ہے ؟ سنو ! وہ نتیجہ نیک وبداعمال کی جزاوسزا ہے تحقیق فیصلہ کا دن یعنی روز قیامت ان سب کے لئے مقررہ وقت ہے آج تو یہ ایک دوسرے کے مددگار بنتے اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں مگر جس روز فیصلہ ہوگا اس روز کافروں کا کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام نہ آئے گا اور نہ وہ مدد کئے جائیں گے مگر جس پر اللہ رحم کرے وہ کون ہوں گے ؟ جو دنیا میں اللہ کے ہو رہے ہوں گے۔ کچھ شک نہیں کہ وہ اللہ بڑا غالب ہے اس کو اپنے بندوں پر رحم کرنے میں کوئی مانع نہیں ہوسکتا۔ نہ اسے بخل ہے کیونکہ بذات خود بڑا رحیم ہے۔ مگر لوگ اس کے رحم سے حصہ لینے کی طرف رغبت نہیں کرتے بلکہ الٹے عذاب کے مستوجب ہوتے ہیں اور نہیں جانتے کہ بدکاری کا نتیجہ کیا ہے۔ سنو ! تھوہر کا درخت جو بہت ہی بدمزہ اور کڑوا اور نہایت ہی ناخوش گوار ہے وہ مجرموں کا کھانا ہوگا جو مثل گلے ہوئے تانبے کے ہوگا اور وہ ان کے پیٹوں میں سخت کھولنے والے پانی کی طرح جوش مارے گا حکم ہوگا اس مجرم کو پکڑو اور گھسیٹ کر جہنم کے بیچوں بیچ لے جائو پھر اس کے سر پر سخت عذاب دینے والا گرم پانی ڈالو جس کا مزہ اس کو محسوس ہو اور کہو کہ لے مزہ چکھ تحقیق تو بڑی قدر و منزلت والا تھا یعنی دنیا میں جب کبھی کوئی شخص حکم الٰہی سناتا تو تو کہا کرتا تھا کہ یہ حکم غریب لوگوں کے لئے ہیں ہم بڑے آدمی ان کے مخاطب نہیں۔ پس یہاں بھی تجھے وہی ملے گا جس کا تو حق دار ہے۔ سنو ! یہ عذاب وہی ہے جس میں تم لوگ شک کیا کرتے تھے پس اب دیکھ لو کہ واقعی ہے یا نظر کی غلطی ہے۔